اپنے حق کیلیئے

اپنے حق کیلیئے

اپنے حق کیلیئے آواز اُٹھائی ہوتی
کاش یہ شرم کے پردے تو اتارے ہوتے

زیست بنتی نہ کبھی جستجوۓ لاحاصل
پھر یہ ممکن تھا کہ طوفاں میں کنارے ہوتے

رات کی گود سے گر مانگ کے لاۓ ہوتے
چاند تارے بھی تیرے دوش پہ وارے ہوتے

روشنی کم نہیں گھر میں تیر ے ہونے دیتے
کاش آنچل میں میرے اتنے ستارے ہوتے

آنکھ کے پانی کو شبنم کا سا عنواں دیکر
چند پھولوں کے ہی چہرے تو نکھارے ہوتے

دوسروں کیلیئے جو درد کا درماں بنتے
خود بھلا درد میں ممّتاز بیچارے ہوتے

Exit mobile version