ایفی ڈرین کیس دراصل ہے کیا اور کون کون اس میں ملوث تھا ؟وہ تمام باتیں جو آپ کو معلوم نہیں

ایفی ڈرین کیس دراصل ہے کیا اور کون کون اس میں ملوث تھا ؟وہ تمام باتیں جو آپ کو معلوم نہیں

(سچ نیوز )راولپنڈی میں انسداد منشیات عدالت کی جانب سے گذشتہ روز مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق ایم این اے  حنیف عباسی کوایفی ڈرین کوٹہ کیس میں جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی جس کے بعد انھیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے،حنیف عباسی راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 60 سے انتخاب لڑ رہے تھے، اس سزا کے بعد وہ  الیکشن میں شرکت کے اہل نہیں رہے کیونکہ آئین پاکستان کے تحت کوئی بھی سزا یافتہ شخص انتخابات لڑنے کا اہل نہیں ہو سکتا جبکہ الیکشن کمیشن نے بھی حنیف عباسی کو سزا ملنے کے بعد این اے 60 میں الیکشن ملتوی کر دیئے ہیں۔ایفی ڈرین کوٹا کیس کا معاملہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سامنے آیا تھا،ایفی ڈرین کا کوٹہ لینے والوں میں سابق وزیرصحت اور پیپلزپارٹی رہنما مخدوم شہاب الدین، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی اور مسلم لیگ ن کے سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی شامل تھے،حنیف عباسی پر 2010 میں اپنی میڈیسن کمپنی کے لیے پانچ سو کلو ایفی ڈرین کا کوٹہ لے کر اس کے غلط استعمال کا الزام لگا،ان سب پرالزام تھا کہ انہوں نے ادویاتی مقاصد کے لیے مختص کردہ ایفی ڈرین کوٹے کو دیگر مقاصد کے لئے استعمال کر اس سے اربوں روپے کمائے۔ایفی ڈرین کس مقصد کے لئے استعمال ہوتی ہے اور جس کیس میں حنیف عباسی کو عمر قید کی سزا ہوئی یہ کیس دراصل کیا ہے اور کون کون اس میں ملوث تھا ؟پوری کہانی جان کر آپ کے ہاتھوں کے طوطے اڑ جائیں گے ۔

ایفی ڈرین ایک نشہ آور کیمیکل ہے، یہ عموماً کھانسی کے شربت میں استعمال ہوتا ہے لیکن اس کیمیکل کو اگر ہیروئن میں ملا دیا جائے تو اس کے اثرات میں دس گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ایفی ڈرین سے ایسی گولیاں بھی بنائی جاتی ہیں جنھیں نوجوان لڑکے لڑکیاں پارٹیوں کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ یہ گولیاں انہیں ”ایکٹو“ کردیتی اور یہ تھکے بغیر گھنٹوں ناچتے رہتے ہیں۔ یہ گولیاں ”موڈایلی ویٹر“ بھی کہلاتی ہیں۔ یہ نوجوانوں کا موڈ خوشگوار بنا دیتی ہیں اور یہ وقتی لحاظ سے دنیا جہاں کے دکھوں سے آزاد ہوجاتے ہیں لیکن اس خوشگوار اثر کے ساتھ ساتھ یہ گولیاں ”لت“ بھی ہیں۔ آپ اگر انہیں ایک دو مرتبہ استعمال کرلیں تو آپ ان کے مستقل عادی ہو جاتے ہیں چنانچہ یورپ، امریکا اور مشرق بعید سمیت دنیا کے 90 فیصد ممالک میں ان گولیوں کی تیاری اور فروخت پر پابندی ہے۔ ان گولیوں کا بنیادی مرکب ایفی ڈرین ہے لہٰذا پوری دنیا میں ایفی ڈرین کی کھلی تیاری اور فروخت پر پابندی ہے اور یہ صرف حکومتی لائسنس کے ذریعے محدود پیمانے پر حاصل کی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں وزارتِ صحت ادویات ساز کمپنیوں کو ایفی ڈرین کا کوٹہ جاری کرتی ہے، اس کوٹے کی حد 500 کلوگرام ہے،ملک میں کسی فارماسوٹیکل کو 500 کلوگرام سے زیادہ کوٹہ نہیں دیا جاتا لیکن 2010 اور 2011 کے اوائل میں ملک میں ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔

ملتان کی ایک فارماسوٹیکل کمپنی برلیک اور اسلام آباد کی دواساز کمپنی ڈاناس فارما نے سیکرٹری صحت سے رابطہ کیا۔ سیکرٹری کو عراق کی ایک کمپنی کا آرڈر دکھایا گیا اور اس آرڈر کی بنیاد پر وزارت صحت سے درخواست کی ”ہم نے بھاری مقدار میں ایفی ڈرین گولیاں بنا کر عراق ایکسپورٹ کرنی ہیں،اس ایکسپورٹ سے ملک کوکئی ملین ڈالر کا فائدہ ہوگا، چنانچہ ہمیں 10 ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ الاٹ کیا جائے۔ اس درخواست کے ساتھ ہی توقیرعلی خان نام کا ایک شخص سیکرٹری صحت (اس وقت) خوشنودلاشاری کے پاس پہنچ گیا۔ توقیر علی خان بعدازاں وزیراعظم کے صاحبزادے علی موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری نکلا۔ توقیر علی خان نے سیکرٹری صحت پر دباؤ  ڈالا ، خوشنود لاشاری صاحب وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بننا چاہتے تھے۔ یہ توقیر علی خان کے دباؤ  میں آگئے اور انہوں نے ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹررشیدجمعہ کو لائسنس جاری کرنے کا حکم دے دیا، رشیدجمعہ کا کنٹریکٹ ختم ہورہا تھا، یہ کنٹریکٹ میں توسیع چاہتے تھے، انہیں توسیع کا لالچ دے دیا گیا ، یہ لالچ میں آگئے اور انہوں نے دونوں کمپنیز کو 9 ہزارکلوگرام ایفی ڈرین کا کوٹہ دے دیا،یہ پوری لوکل مارکیٹ کی ضرورت سے کہیں زیادہ تھا۔ یہ کوٹہ ملتے ہی دونوں کمپنیوں نے وزارت سے دوبارہ رابطہ کیا اور وزارت کو اطلاع دی کہ عراق کی کمپنی نے آرڈر منسوخ کر دیئے ہیں ، ہماب گولیاں ایکسپورٹ نہیں کر سکتے چنانچہ ہمیں یہ لوکل مارکیٹ میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ یہ قانون کی دوسری خلاف ورزی تھی لیکن کیونکہ موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری فائل کے ساتھ ساتھ تھا ، چنانچہ ڈی جی ہیلتھ اور سیکرٹری ہیلتھ نے دونوں کمپنیوں کو یہ کوٹہ ملک میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔

کمپنیوں نے چند ہفتے بعد وزارت کو اطلاع دی ہم نے 9ہزار کلوگرام ایفی ڈرین کی گولیاں بنا کر مارکیٹ میں فروخت کردی ہیں،وزارت نے کمپنیوں کا یہ سرٹیفکیٹ قبول کرلیا۔ اس دوران کسی نے ان کمپنیوں سے نہیں پوچھا ملک میں ہر سال ایفی ڈرین کی صرف 10 ہزار گولیاں بنتی ہیں لیکن تم نے ڈیڑھ دو ارب گولیاں بنا کر مارکیٹ میں فروخت کردیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ اور یہ گولیاں کہاں استعمال ہوئیں لیکن کیونکہ فائل کے پیچھے موسیٰ گیلانی کا سیکرٹری تھا، چنانچہ پوچھنے والے نے خاموشی اختیار کرلی،  یہ خاموشی چند ماہ تک جاری رہی لیکن پھر آسٹریلیا میں ممنوعہ ادویات فروخت کرنے والا ایک ریکٹ پکڑا گیا، اس ریکٹ سے بھاری مقدار میں ایفی ڈرین برآمد ہوئی۔تحقیقات ہوئیں تو پتا چلا یہ ایفی ڈرین پاکستان سے سمگل ہو کر آسٹریلیا آئی تھی، آسٹریلیا نے پاکستان کو تحریر طور پر مطلع کردیا، یہ فائل پاکستان کے دفتری نظام میں چلنا شروع ہوگئی اور چلتے چلتے اینٹی نارکوٹکس کے پاس پہنچ گئی۔ اے این ایف نے روٹین کے مطابق کارروائی شروع کردی۔ کارروائی کے دوران جب برلیک کمپنی ملتان کی تفتیش ہوئی تو پتا چلا جس کمپنی نے ستر اسی کروڑ گولیاں بنانے کا دعویٰ کیا تھا اس کا اس ماہ کا بجلی کا بل صرف 14 ہزار روپے تھا۔ اس کا مطلب تھا اس کارخانے میں سرے سے کوئی کام ہی نہیں ہوا۔ اسلام آباد کی کمپنی کی حالت بھی ایسی ہی تھی۔ اے این ایف نے تحقیقات کا دائرہ بڑھایا تو یہ بہت جلد توقیرعلی خان، خوشنودلاشاری ڈاکٹر رشید جمعہ اور موسیٰ گیلانی تک پہنچ گئی۔ خوشنودلاشاری اس وقت تک وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بن چکے تھے۔ تحقیقات کے دوران وزارت کے کچھ افسروں نے تمام دستاویزات اور ثبوت اے این ایف کے حوالے کردیے اور کیس کھل گیا، اس دوران وزیراعظم پرنسپل سیکرٹری اور موسیٰ گیلانی کو معاملے کی سنگینی کا اندازہ ہوگیا لیکن اس اندازے سے قبل اینٹی نارکوٹکس کے سیکرٹری سہیل احمد نے اے این ایف کو موسیٰ گیلانی اور خوشنودلاشاری کو نوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ وزیراعظم نے فوری طور پر سہیل احمد کا تبادلہ کردیا۔ چودھری برادران اس نازک وقت میں وزیراعظم کی مدد کے لیے آگے بڑھے، ان کے کزن چودھری تجمل حسین کے داماد ظفرعباس لک 20 ویں گریڈکے افسر تھے، چودھری برادران نے ان کی خدمات وزیراعظم کو پیش کر دیں۔

وزیراعظم نے انہیں اینٹی نارکوٹکس کی وزارت کا قائم مقام انچارج بنادیا۔ وزیراعظم نے اینٹی نارکوٹکس ایکٹ میں تبدیلی کرکے اے این ایف کے تمام اختیارات سیکرٹری کو سونپ دیے۔ وزیراعظم اور انچارج سیکرٹری نے اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل شکیل حسین اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بریگیڈیئر فہیم کی خدمات فوج کو واپس کردیں یوں یہ معاملہ اور تمام اختیارات ظفر عباس لک کے پاس آگئے۔ اس سے قبل ایک اور دلچسپ ڈویلپمنٹ ہوئی۔ ایف آئی اے نے دونوں کمپنیوں کے بارے میں تحقیق کی۔ شنید ہے ایف آئی اے کے افسر نے دونوں سے دو دو کروڑ روپے لیے اور ان کے حق میں فیصلہ دے دیا لیکن اے این ایف کی تحقیقات میں یہ کمپنیاں اور دیگر لوگ ملزم ثابت ہو گئے چنانچہ اے این ایف نے ملزموں کے خلاف کارروائی کا حکم جاری کردیا ۔ملزم اس حکم کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ چلے گئے ۔اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس دوبارہ وزارت کے پاس بھجوایا ،وزارت نے اس وقت تک ظفر عباس کے ہاتھ میں آچکی تھی چنانچہ سیکریٹری نے اس کیس کو بے بنیاد اور جھوٹا قرار دے دیا ۔اے این ایف کے ڈی جی میجر جنرل شکیل حسین اپنے سیکریٹری کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں چلے گئے اور یوں یہ کیس سپریم کورٹ پہنچ گیا اور وہاں پہنچ کر ساری کہانی کھل گئی۔حکومت نے اس دوران ڈی جی اے این ایف میجر جنرل شکیل اور تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ بریگیڈیئر فہیم کو عہدوں سے ہٹا دیا لیکن سپریم کورٹ نے 10اپریل کو موسیٰ گیلانی اورخوشنود لاشاری کو نوٹس جاری کرنے اور تحقیقاتی ٹیم اور بریگیڈئر فہیم کو واپس بحال کرنے کا حکم دے دیا اور یوں ایک بار پھر سپریم کورٹ اور وزیراعظم آمنے سامنے کھڑے ہو گئے۔یہ انتہائی نوعیت کا کیس ہے جس میں 7 سے 21 ارب روپے کی کرپشن ہوئی، اس کیس میں ٹنوں کے حساب سے ہیروئن بھی بنی تھی اور اربوں کی تعداد میں نشہ آور گولیاں بھی اور یہ سارا مواد آسٹریلیا اور یورپ میں فروخت ہوا۔ اس کہانی میں ایک سائیڈ سٹوری بھی ہے جو  اے این ایف کی تحقیقاتی ٹیم کے نوٹس میں آئی۔ سیکرٹری ہیلتھ نے جب یہ کوٹہ جاری کیا تو راولپنڈی سے پاکستان مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک ایم این اے حنیف عباسی سیکرٹری خوشنودلاشاری کے پاس گئے، اُنہیں لائسنس کی کاپی دکھائی اور دھمکی دی کہ میں یہ مسئلہ میڈیا میں اٹھاؤں گا،اس دھمکی پر خوشنودلاشاری گھبرا گئے چنانچہ انہوں نے حنیف عباسی کو بھی ایفی ڈرین کا کوٹہ دے دیا۔جب یہ کیس منظر عام پر آیا اور میڈیا پر اس کی گونج سنائی دی تو  2011 میں اس وقت کے وزیر صحت مخدوم شہاب الدین نے اسمبلی فلور پر بتایا کہ 9000 کلو گرام ایفی ڈرین کوٹہ دیئے جانے کی تحقیقات کی جارہی ہیں،وزیر صحت کے اس انکشاف کے بعد اینٹی نارکوٹکس فورس حرکت میں آیا اور معاملہ میں ملوث افراد کے نام سامنے لائے گئے،اس کیس میں اے این ایف نے 10 نومبر 2011 میں یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی موسٰی گیلانی، مخدوم شہاب الدین،سابق ڈی جی ہیلتھ ڈاکٹر رشید جمعہ،توقیر علی خان سمیت دیگر 11 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔اس معاملے میں مزید پیش رفت ہوئی  تو چند ماہ بعد 2012 میں اینٹی نارکوٹکس فورس نے حنیف عباسی سمیت آٹھ ملزموں کےخلاف بھی مقدمہ درج کر لیا۔ جون 2014ءکو ایفی ڈرین کوٹہ  کیس کو داخل دفتر کر دیا گیا تھا جس کے بعد2017میں  سپریم کورٹ کے حکم پر اس کیس کو دوباہ بحال کردیا گیا تھا۔ بہرحال اس پورے  کیس کا کیا بنتا ہے ؟ سردست کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

Exit mobile version