ٹھیک ساڑھے چار بج رہے تھے وہ اپنے آفس کے کیبن میں بیٹھا فاٸلز ترتیب دے رھا تھا کچھ ہی دیر میں روشنی مدھم ھوگٸ۔ اس نے ارد گرد دیکھا تمام بتیاں جل رھی تھی لیکن پھر بھی ماحول میں روشنی مدھم تھی۔ اب اس نے کھڑکی سے باھر کی جانب دیکھا۔ اف آسمان پر تو کالے بادلوں کا راج تھا۔ کالی گھٹاٶں نے آسمان کو تھام رکھا تھا۔ اور اسی لۓ ماحول میں اندھیری تھی۔ بادل کسی بھی وقت برسنے کو تھے۔ اس نے سوچا بارش کی پیشنگوٸ بھی ہے اور دفتر سے چھٹی میں بس آدھا گھنٹا ہی توباقی ہے وہ اپنا آج کا سارا کام بھی مکمل کر چکا ہے باس سے اجازت لے کر آج آفس سے آدھا گھنٹہ پہلے نکل جاتا ھوں۔ آگر بارش تیز شروع ھوگٸ تو سفر دشوار ہوجاۓ گا۔ بس اسی خیال سے اس نے تمام فاٸلز جلدی جلدی ترتیب دی اور باس کے کمرے کا رخ کیا۔ اجازت لے کر اندر داخل ھوا۔ اب اس نے ہچکچاتے ھوۓ کہنا شروع کیا۔ بارش کی پیشنگوئی ھے میں اپنا تمام کام مکمل کر چکا ھوں۔بارش شروع ھوگٸ تو مجھے دشواری ھوگی لہزا آگر آپ اجازت دے تو میں بارش شروع ھونے سے پہلے ھی بس آج کے دن آدھا گھنٹے پہلے نکل جاٶں؟ اس نے ایک زرا سانس لی پھر دوبارہ کہا کام تو سارا مکمل کر چکا ھوں۔بڑی مہربانی ھوگی آپ کی۔ اس نے اپنی بات مکمل کی۔ باس کے چہرے پر تو ناگواری کےتاثرات تھے۔ انہوں نے اپنی بھویں چڑھا کر کھا صاحبزادے بارش تو سب کے لۓ ہے تم انوکھے ھو کیا۔ پانچ بجے کا وقت ہے تو پانچ بجے ہی جانا۔ چلو اب اپنا کام کرو۔ باس نے ناگواری سے کہا۔ اس نے جی سر کہا اور کمرے سے باھر آگیا۔ اب وہ فارغ اپنے کیبن میں بیٹھا کھڑکی سے باھر دیکھ رھا تھا۔ کچھ دیر میں ہی شدید بارش زورو شور سے برسنے لگی۔
ٹھیک پانچ بجے وہ باٸیک پر اپنے دفتر سے گھر کے لۓ نکلا۔ بارش ھوتے ھوۓ تقریباً بیس پچیس منٹ ھوگۓ تھے۔
سڑکوں پر پانی کی لہرے بن رھی تھیں۔ کچھ ہی دور جاکر اس کی باٸیک بند ھوگٸ۔ اس نے بار بار اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی مگر تمام کوششیس ناکام رھیں۔ اب وہ مجبور تھا کے پیدل ہی باٸیک لے کر آگے بڑھے۔ جوں جوں وہ آگے بڑھ رھا تھا اتنا ہی سڑک پر شدیدپانی جمع تھا۔ بارش مسلسل شدید ھورھی تھی۔
ایک جگہ سڑک کے کنارے جاکر وہ باٸیک لے کر کھڑا ھوگیا۔ کیا حرج تھا کے آگر صرف آج کے دن اسے آدھے گھنٹے پہلے دفتر سے مہلت مل جاتی۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری۔ اس کے کپڑے شدید تر تھے۔ سڑک پر پانی گھٹنوں سے بھی اوپر تھا۔ اس نے اپنے اردگرد کا جاٸزہ لیا۔ سامنے ایک رکشے والا پریشان اپنا رکشہ چلانے کے لۓ اس کوآگے کی طرف دھکیل رھا تھا۔ رکشے میں ایک عورت اپنے تین چار سال کے بچے کے ساتھ پریشان بیٹھی تھی۔ رکشے والا آس پاس کے لوگوں سے مدد مانگ رھا تھا کے اس کا رکشا آگے بڑھانے میں مدد کریں لیکن کسی نے توجہ نا دی الٹا کچھ لڑکے وہاں رکشے والے پر تنز و مزح کرنے لگے۔ اور اس پر بارش کا پانی اچھالتے رھے۔ رکشے والا بھی ان پر چیختا رھا۔اب اس سے رھا نا گیا اب اس نے آگے بڑھ کر ان بد لہاز لڑکوں کو ڈانٹ کر پیچھے کیا اور رکشے والے کی مدد کی۔ کچھ دیر کی کوشش سے رکشا اب چل پڑا۔رکشے والے نے اسے ڈھیروں دعاٸیں دیں اور آگے بڑھ گیا۔
اب دوسری طرف اسنے دیکھا تو کچھ بارہ تیرہ سال کے لڑکے پانی میں یوں تفریح کر رھے تھے کہ جیسے وہ سمندر کی سیر کو آۓ ہو۔ اف یہ کیا ھوگیاں ہے ہمارے معاشرے کو علم اور شعور کی کمی نے ھمیں کہاں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ اس نے اپنا سر افسوس میں جھٹکا پھر اپنی باٸیک پیدل چلاتا ھوا آگے بڑھ گیا۔
اب وہ ایک علا قے کے پاس سے گزر رہا تھا۔ اس علاقے میں شدید پانی تھا۔ بہت خوب صورت گھر بنے تھے۔کوٸ بھی دیکھتا تو اس کے دل میں ایسا گھر لینے کی خواہش ایک دفعہ تو ضرور آتی۔ صاف ستھرے اور خوبصورت گھر لیکن اس علاقے میں اتنا پانی تھا جو گھروں میں داخل ھوچکا تھا۔ اور لوگ پریشان اپنے گھروں سے کچھ ضروری سامان اٹھاۓاور اپنےمعصوم بچوں کو لۓ شدید پریشان حال میں نقل مکانی کر رھے تھے۔ تمام صوتحال دیکھ کر اندازہ ھوگیا تھا کے اس علاقے میں بلڈر نے پیسوں کی لالچ میں اور اپنا کام کھرا کرنے کے لۓ ظاھری طور پر تو بہت خوبصورت گھر بناۓ تھے لیکن وہ گھر نالے پر بناۓ گۓ تھے اور نکاسی کا نظام درست نہیں تھا۔ اب جب شدید بارش سے نالے بھر گۓ، سڑکیں بھر گٸ تو لوگوں کو دشواری کا سامنا تھا۔ اور حیرت تھی ان لوگوں پر جنہوں نے اپنی محنت کی کماٸ سے ایساگھاٹے کا سودا کیا۔ اور افسوس ہے اس پر جس نے اس نقشے کو منظور کیا۔ یہ تو تصویر کا اک زرا سا رخ تھا لیکن ایسے اور بہت سے معاملات ھیں۔
اس نے سوچا کیا قصور ھے آخر لوگوں کا کے کوٸ گھر جانے کے لۓ پریشان ھے تو کوٸ اپنے پانی سے بھرے ھوۓ گھرسے نکل کر کسی محفوظ مقام پر جانے کے لۓشدیدبارش کے مسافر ھیں۔ کیا یہ قصور ہے کے ان کے گھر کچی سڑکوں پر ھیں یا پھر یے کے وہ اونچے گھروں میں نہیں۔ کون زمےدار ھے ان پر آنے والی اس ناگہانی کا۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہےوہ یے کے اس بات سے ھرگز بھی انکارنہیں کیا جاسکتا کے وہ ادارے جو زمے دار تھے انہوں نے شدید لا پرواھی اور بے رحمی کا کردار ادا کیا ہے۔ لیکن ایک نظر ہمیں اپنے رویوں پر بھی ڈالنی ھوگی۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کے ھم بھی تو ایک اچھے شہری ھونے کا ثبوت بمشکل ہی دیتے ھیں۔ سڑکوں پر اگر کچرے دان رکھا بھی ھو تب بھی ہم کچرے دان تک جانے میں سستی دکھاتے ھیں۔ ھر شخص یہ سوچ کر ماحول کو آلودہ کرتا ہے کے میرے زرا سے کچرے سے کیا فرق پڑےگا۔ اور پھر ایک بڑا فرق ھمیں نظر آتا ھے۔ نالوں کی اور سڑکوں کی صفاٸ کروانا ھمارے اختیار میں نہیں لیکن ان نالوں اور سڑکوں پر کچرا بھرنے کا کام ھم پوری طرح سرانجام دیتے ھیں۔ ھمیں اپنے رویوں میں تو کوتاھی نہیں برتنی چاھیے۔ اسی طرح ہم کیوں جھوٹے اور دھوکے باز لوگوں کا باٸیکاٹ نہیں کرتے۔ایسے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑنے سے انہیں حوصلہ ھوتا ہے۔ کیوں ھم کبھی جگہ کے لۓ اور کبھی کسی اور وجہ سے درختوں کو اپنے ماحول کے حصے سے ہٹاتے ھیں۔ یے تو بس چند پہلوں ھیں لیکن ایسی اور بہت سی باتوں میں ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ھوگا۔ جب ھم خود لا پرواہی دکھاتے ھیں تو اس سے ھمارے اوپر بیٹھے لوگوں کو حوصلہ ھوتا ہے کے وہ ھمارے حقوق اور اپنے فراٸض میں لاپرواہی برتیں۔ اگر ہم اپنے رویے اور سوچ کو بدلےاور ایک زمےدار شہری بنیں توپھرھم کافی حد تک اس قابل ھوجاۓ گیں کے اپنے حقوق منوا سکیں۔
”جو بدلی زمین کی آب و ہوا،
اور آسمان میں یوں توفاں بھرا،
کہ گرجا آسماں، برسا یوں آسماں،
مگر رحمت سے تھا بھرا آسماں“۔