<h3>آنکھوں سے تری زلف کا سایہ نہیں جاتا آرام جو دیکھا ہے بھلایا نہیں جاتا</h3> <h3>اللہ رے نادان جوانی کی امنگیں! جیسے کوئی بازار سجایا نہیں جاتا</h3> <h3>آنکھوں سے پلاتے رہو ساغر میں نہ ڈالو اب ہم سے کوئی جام اٹھایا نہیں جاتا</h3> <h3>بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی لیکن کوئی روٹھے تو منایا نہیں جاتا</h3> <h3>جس تار کو چھیڑیں وہی فریاد بہ لب ہے اب ہم سے عدمؔ ساز بجایا نہیں جاتا</h3>