تحریر: سعدیہ اکیرا
عنوان: ہمارے فیصلے
ہم کوئی عجیب قوم ہے اسی طرح ہمارے ملک میں ہونے والے فیصلے بھی عجیب ہے جب ہم کوئی ایک فیصلہ کرلیتے ہیں پھر کچھ عرصے ہمیں یہ لگتا ہے کہ ہمارا یہ فیصلہ غلط تھا اور پھر اس سے ریورس کرنے کے لیے ہم کچھ بھی کرجاتے ہے اس سارے چکر میں ملک کا جو نقصان ہو سو ہو لوگ مؤثر ہوتے ہیں اور اب لوگ کنفیوژ ہے کہ آخر کون سا صحیح فیصلہ ہے اور کون سا غلط ہے کیونکہ وہ ہی عدالتیں جو انہیں سزا دیتی ہے پھر وہی بری بھی کردیتی ہے عوام تو اس سب میں کٹھ پُتلی بنی ہوئی ہے اور ان کے غلط صحیح فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کے لیے ہے
میاں صاحب جو آج سے چار سال پہلے اپنی صحت کے لیے اس ملک سے گئے تھے اس وقت قوم کو ان کا کوئی اور امیج دیکھا گیا تھا اور اب ان کو اسے پیش کیا جارہا ہے جیسے ان پر کوئی جبر کرکے ملک سے نکال کیا تھا اس وقت وہ جانے کو بیتاب تھے اس علاج کے لیے جو وہاں جاکر انہوں نے کبھی کروا ہی نہیں اب جب واپس آرہے ہیں تو پھر خود کو بے بس اور مظلوم ثابت کرنا کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے اب ان کو بہادر اور دلیرانہ لیڈر کہا جارہا ہے اور ن لیگ اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور اس کے لیے اپنے تمام وسائل کا پھرپور استعمال کررہی ہے
سوال تو یہ ہے کہ میاں صاحب کی یہ بہادری اور دلیرانہ صلاحیت اس وقت کہا ہوتی ہے جب بھی ان پر مشکل وقت آئے وہ ہمیشہ ہی ڈیل کے تحت اس ملک سے فرار ہوجاتے ہیں اور جب حالات ان کو اپنے کنٹرول میں ہو تو وہ اس ملک کے بیٹے بن کر ملک میں تشریف لے آتے ہیں
چار سال کی جلا وطنی کے بعد اس ملک میں موجود ہیں اور جس طرح کے حالات نظر آرہے ہیں کیوں لگتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے ہی سیٹ ہے اور انہیں ایک دفعہ پھر اس ملک کا اقتدار مل جائے گا سوال یہ ہے کہ آخر کب تک ہمیں یہ لگے گا کہ یہ فیصلہ ٹھیک تھا کیا اس فیصلہ کو پھر بدل نہیں جائے گا؟ اور کیا میاں صاحب جو اس وقت قوم کا مسیحا، امید، روشنی اور خوشی کا علمبردار کہا جارہا ہے کیا وہ واقع مسیحا بن پائے گے اور عوام کو ان اندھیروں سے نکال سکے گے جس میں ڈالنے کی کچھ زمہ داری ان کی اپنی پارٹی کی بھی ہے یا پھر وہ بھی وہی سب دہرایں کے جو پہلے سولہ ماہ میں کیا گیا ہے
یا ہر بار کی طرح صرف سیاسی وعدے ہی ہو گے یا عملی طور پر بھی کچھ کیا جائے گا کیونکہ عوام میں اب مزید سکت نہیں ہیں کہ مختلف تجربات اور غلط فیصلوں کا بوجھ اٹھا سکے
اور عوام کو صحیح معنوں میں یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کر سکے تمام سیاسی لوگوں کو بھی اس بات کا جب احساس ہو گا کہ ان کے سر سے آسمان اور پاؤں سے زمین عوام نہیں کھینچ سکتے لیکن جب چاہیے ان کے نیچے سے کرسی کھینچ سکتے ہیں پھر یوں کوئی عوام کو یوں بیوقوف نہیں بنا سکے گا اور عوام میں بھی یہ احساس پیدا ہو گا کہ ان کے فیصلوں کی اہمیت ہے اور اس ملک کی تقدیر وہ خود بدل سکتے ہیں
اللّٰہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین