حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہل جفا میرے بعد
منصب شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولی انداز و ادا میرے بعد
شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد
خوں ہے دل خاک میں احوال بتاں پر یعنی
ان کے ناخن ہوئے محتاج حنا میرے بعد
در خور عرض نہیں جوہر بیداد کو جا
نگہ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد
ہے جنوں اہل جنوں کے لیے آغوش وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد
کون ہوتا ہے حریف مے مرد افگن عشق
ہے مکرر لب ساقی پہ صلا میرے بعد
غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیت مہر و وفا میرے بعد
آئے ہے بیکسی عشق پہ رونا غالبؔ
کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد
تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب
بے خطر جیتے ہیں ارباب ریا میرے بعد
تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقا میرے بعد