واشنگٹن(سچ نیوز)سعودی عرب نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے سے منسوب اس دعوی کو رد کر دیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دیا تھا۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق واشنگٹن میں سعودی سفارت خانے کی ترجمان فاطمہ بہیشن نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہافسوس کی بات ہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے ہمارا مکمل جواب شائع نہیں کیا، یہ ایک خطرناک الزام ہے اور اسے نامعلوم ذرائع کے لیے نہیں چھوڑنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ شہزادہ خالد بن سلمان کی جمال خاشقجی کے ساتھ ٹیلیفون پر کوئی بات چیت نہیں ہوئی ، اس حوالے سے موبائل فون کی کالز کا ڈیٹا چیک کیا جا سکتا ہے تا کہ حقیقت سامنے آ جائے، اس سلسلے میں ترکی کے حکام سے بھی درخواست کی جانی چاہیے، یہ کام جنرل پراسیکیوٹر کئی بار کر چکے ہیں تاہم کوئی فائدہ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ خالد بن سلمان نے جمال خاشقجی سے فون پر گفتگو میں ترکی جانے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی۔دوسری طرف واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان کا کہنا ہے کہ امریکی اخبار نے اُن کے اور جمال خاشقجی کے حوالے سے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ درست نہیں ہے،جمال خاشقجی کے ساتھ آخری مرتبہ رابطہ ٹیکسٹ میسجز کے ذریعے 26 اکتوبر 2017ء کو ہوا تھا،میری جمال خاشجقی کے ساتھ فون پر قطعا بات نہیں ہوئی اور نہ میں نے انہیں ترکی جانے کی تجویز پیش کی۔امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر شہزادہ خالد بن سلمان کا کہنا تھا کہ اگر یہ دعوے درست ہیں تو امریکی حکومت اس حوالے سے اُس کے پاس جو کچھ ہے وہ سامنے لے کر آئے۔یاد رہے کہ اس سے قبل معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے کہا تھا کہ سی آئی اے کو پختہ یقین ہے کہ جمال خشوگی کو قتل کرنے والے سکواڈ کا تعلق براہ راست شہزادہ محمد بن سلمان سے ہے اور سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا براہ راست حکم دیا۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق سی آئی اے نے اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے متعدد ذرائع کا تجزیہ کیا ہے، جن میں ترکی کی طرف سے فراہم کردہ وہ آڈیو ریکارڈنگ بھی شامل ہے جو خاشقجی کے قتل کے وقت ریکارڈ ہوئی۔ اس کے علاوہ ان میں سعودی سفیر خالد بن سلمان کی اُس کال کی ریکارڈنگ بھی ہے جو انہوں نے خاشقجی کو کی اور ان سے کہا کہ وہ استنبول کے قونصل خانے جائیں۔یاد رہے کہ امریکہ میں سعودی سفیر شہزادہ خالد بن سلمان سعودی ولی عہد کے سگے بھائی ہیں ۔