نئی دہلی (سچ نیوز)تامل ناڈو میں برہمنی نظام کے خلاف بغاوت کے روپ میں ڈراوڑ جہدوجہد شروع ہوئی تھی، جس کی وجہ سے وہاں برہمنی رسم و رواج میں عدم یقین کا پرچار ہوا۔جنوبی انڈیا کے معروف رہنما اور تا ناڈو کے سابق وزیر اعلیٰ ایم کرونا ندھی کا منگل کی شام 94 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا ہے۔انھیں ان کے مذہبی عقیدے کے برخلاف جلانے کی بجائے دفنایا جائے گا۔
برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اس سے قبل انڈیا کی جنوبی ریاست تامل ناڈو کی مقبول رہنما جے للیتا کو بھی ان کے عقیدے کے برخلاف جلانے کے بجائے دفنایا گیا تھا۔
تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ کو شخصیت پرستی کا آئیکون کہا جا سکتا ہے کیونکہ ریاست میں کسی دیوی کی طرح ان سے عقیدت رکھی جاتی تھی اور آج بھی ان کے عقیدت مند بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
جے للیتا کی موت کے بعد ان کے جسد خاکی کو جب قبر میں اتارا جا رہا تھا تو بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ ہندو رسم و روایت کے مطابق موت کے بعد انھیں نذر آتش کیوں نہیں کیاگیا؟ اور اب یہی سوال ایک بار پھر لوگوں کے ذہن میں اٹھ رہا ہے کہ کروناندھی کو کیوں نذر آتش نہیں کیا جا رہا ہے؟
اس کا جواب تامل ناڈو کی تاریخ میں پوشیدہ ہے۔ دراصل وہاں برہمنی نظام کے خلاف بغاوت کے روپ میں ڈراوڑ جہدوجہد شروع ہوئی تھی اور اس نے وہاں کسی برہمنی رسم و رواج میں عدم یقین کا پرچار کیا تھا۔
عام ہندو روایت کے برخلاف دراوڑ تحریک سے وابستہ لیڈر اپنے نام کے ساتھ ذات پات کو ظاہر کرنے والے نام کا بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔
مدراس یونیورسٹی میں تمل زبان و ادب کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر وی اراسو نے پہلے بتایا تھا کہ ‘اس کی وجہ ان رہنماوں کا دراوڑ جدوجہد سے منسلک ہونا ہے اور دراوڑ تحریک کا ہندو مذہب کے کسی برہمنی رسم و رواج میں عدم یقین ہے۔’
انڈیا کے معروف صحافی مدھوکر اپادھیائے نے بتایا کہ تامل ناڈو میں جب دراوڑ تحریک زوروں پر تھی تو وہاں بہت سارے مندر توڑے گئے تھے، مورتیوں کو ہٹا دیا گیاتھا اور برہمنی نظام کی مخالفت میں بہت سے رسم و رواج کو بھی توڑا گیا۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ لوگوں کی زندگی میں ’خدا‘ کی جگہ خالی ہو گئی جس کے سبب وہاں کے لیڈروں اور اداکاروں اور اداکاراوں کے مندر نظر آتے ہیں کیونکہ کوئی تو ہو جو اس خالی جگہ کو پر کر سکے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمل ناڈو میں جے للیتا کے چاہنے والے انھیں ایک دیوی کی طرح پوجتے ہیں اور وہ ایک لمبے عرصے سے تمل ناڈو کی سیاست پر چھائی ہوئی تھیں۔
پروفیسر وی اراسو کہتے ہیں کہ عام ہندو روایت کے برخلاف دراوڑ تحریک سے وابستہ لیڈر اپنے نام کے ساتھ ذات پات کو ظاہر کرنے والے نام کا بھی استعمال نہیں کرتے ہیں۔
کرونا ندھی ہوں یا پھر اس سے قبل جے للیتا دونوں اس تحریک سے وابستہ رہے ہیں۔ جے للیتا نے اپنے سیاسی گرو اور اپنے زمانے کے معروف تمل اداکار ایم جی آر کی موت کے بعد پارٹی کی کمان سنبھالی تھی۔ ایم جی آر کو بھی ان کی موت کے بعد دفن کیا گیا تھا اور ان کی قبر کے پاس ہی دراوڑ تحریک کے بڑے رہنما اور ڈی ایم کے پارٹی کے بانی اننادورے کی بھی قبر ہے۔
اب ڈی ایم کے پارٹی یہ چاہتی ہے کہ ان کے لیڈر کروناندھی کو بھی وہیں جگہ ملے لیکن جے للیتا کی قائم کردہ جماعت اے آئی اے ڈی ایم کے جو برسر اقتدار ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں ہے۔
اس لیے کرونا ندھی کے مدفن کی جگہ کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ ان کی آخری رسومات ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ادا کی جائے گیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ انّا یونیورسٹی کے سامنے وہ دو ایکڑ زمین دینے کے لیے تیار ہے لیکن یہ جگہ مرینا بیچ سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
کرونا ندھی کے بیٹے ایم کے سٹالن، ایم کے الیگری اور بیٹی کانیموڑی کا مطالبہ ہے کہ ان کے والد کو دراوڑ تحریک کے بڑے رہنما انّا دورے کی بغل میں جگہ ملے۔
ڈی ایم کے کے حامیوں نے کروناندھی کو مرینا بیچ پر دفن کرنے کے مطالبے کے ساتھ جگہ جگہ توڑ پھوڑ بھی کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے رہنما مرینا بیچ پر دفن ہوں۔
کانگریس کے رہنما راہل گاندھی اور معروف اداکار رجنی کانت نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ کرونا ندھی کو مرینا بیچ پر دفنانے کی اجازت دی جائے۔
کروناندھی جنوب کی سیاست میں قدآور رہنما تسلیم کیے جاتے ہیں اور گذشتہ چھ دہائیوں میں وہ پانچ بار ریاست کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ انھیں فلم کے سکرپٹ رائٹر کے طور پر شہرت حاصل ہوئی اور اس کے ذریعے ابتدا میں انھوں نے دراوڑ تحریک کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا کام کیا۔