بغداد (سچ نیوز) یہ سال 2016 کے اواخر کی بات ہے کہ عراقی دارلحکومت میں شدت پسند تنظیم داعش کی جانب سے
پے در پے دھماکے کئے جا رہے تھے۔ ایک دن میں پہلے ہی چار دھماکے ہوچکے تھے اور شام کے وقت شہر کے شمال مغربی علاقے میں ایک اور دھماکہ اُس وقت ہوا جب بارود سے بھری ایک کار اچانک زوردار دھماکے سے پھٹ گئی۔ سیاہ دھواں دھماکے کی جگہ سے اُٹھ رہا تھا اور گاڑی کے اردگرد زخمی اور تڑپتے ہوئے لوگ زمین پر گرے نظر آرہے تھے۔ پولیس دھماکے کی جگہ کو گھیرے میں لے چکی تھی اور کچھ دیر بعد درجن بھر افراد کے شہید اور مزید کئی درجن کے زخمی ہونے کی خبر میڈیا پر چل رہی تھی جبکہ داعش کی جانب سے دھماکے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی گئی تھی۔ بظاہر تو یہ ایک بڑا سانحہ نظر آ رہا تھا، لیکن کیا واقعی ایسا ہی تھا؟حقیقت کچھ اور تھی، اور اتنی حیران کن کہ سن کر آپ یقین ہی نہیں کر پائیں گے۔ یہ ایک جعلی دھماکہ تھا جو داعش کے ایک ایسے ’رکن‘ نے کیا تھا جو دو سال سے اس خطرناک تنظیم کو بے وقوف بنا رہا تھا۔ وہ اس طرح کے جعلی دھماکے پہلے بھی کر چکا تھا لیکن بدقسمتی سے اس بار قریبی عمارت کے سی سی ٹی وی کیمروں نے اُس کا راز فاش کر دیا تھا۔
دراصل جب یہ دھماکہ ہوا تو سڑک بالکل سنسان پڑی تھی۔ دھماکے کے چند لمحے بعد کچھ ’خون آلود‘ افراد بھاگتے ہوئے وہاں پہنچے اور تباہ شدہ کار کے ارد گرد لیٹ گئے۔ یہ زخمی اور مرنے والے بھی جعلی تھے۔ یہ سب ایک ڈرامہ تھا جس کی ہدایت کاری عراق کے فیلکن انٹیلی جنس سیل سے تعلق رکھنے والے بہادر افسر کیپٹن حارث السوڈانی کررہے تھے ۔
کیپٹن حارث نے دو سال قبل ایک شدت پسند کا روپ دھار کر داعش میں شمولیت حاصل کی تھی اور انتہائی ذہانت اور مہارت سے اس تنظیم میں ترقی کے مدارج طے کئے تھے۔ داعش نے ان کے ذمے بارودی مواد سے بھری گاڑیوں کو دھماکے کی جگہ پہنچانے کا حساس کام لگا رکھا تھا، مگر اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ شخص اصلی دھماکوں کی بجائے جعلی دھماکے کر کے دو سال سے انہیں دھوکا دے رہا تھا۔ داعش کے کمانڈر انہیں دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی دے کر بھیجتے تھے لیکن وہ اپنی خفیہ ٹیم کی مدد سے راستے میں ہی زیادہ تر بارودی مواد نکال دیتے تھے۔ اس کے بعد موزوں جگہ پر مناسب
موقع دیکھ کر دھماکہ کیا جاتا تھا اور کیپٹن حارث کی ٹیم تباہ شدہ گاڑی کے ارد گرد انتہائی مہارت سے دھماکے کے متاثرین کی اداکاری کرتی تھی۔ اس کے بعد داعش کے سینئر رہنماﺅں کو اس ’تباہی‘ کی تصاویر اور ویڈیوز ثبوت کے طور پر دکھائی جاتی تھیں اور میڈیا میں بھی جعلی تصاویر اور ویڈیوز پر مبنی خبریں چلائی جاتی تھیں۔ کیپٹن حارث اور اُن کی ٹیم کی غیر معمولی مہارت کے سبب بے گناہوں کی جانیں بھی بچ جاتی تھیں اور داعش کے کمانڈر بھی یہ سمجھ کر خوش ہو جاتے تھے کہ وہ اپنے ٹارگٹ حاصل کر رہے ہیں۔
کیپٹن حارث کی ٹیم ایک عرصے سے داعش کو اسی طرح دھوکہ دے رہی تھی لیکن جب شمال مغربی بغداد کے علاقے الحوریہ میں انہوں نے ایک دھماکہ کیا تو ایک قریبی عمارت کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں اس کی تمام حقیقت ریکارڈ ہوگئی اور جلد ہی یہ ویڈیو میڈیا کو بھی مل گئی۔ عراقی پولیس نے میڈیا پر سامنے آنے والے دعوﺅں کی تردید کردی اور یوں یہ بات وقتی طور پر دب گئی مگر داعش کمانڈروں کے دل میں شک پیدا ہو گیا تھا۔
کیپٹن حارث اب تک 30 جعلی بارودی گاڑیوں کے دھماکے کر چک تھے اور 18 خود کش حملوں کو بھی انہوں نے اسی طرح ناکام بنایا تھا۔ اس کے بعد انہیں مشرقی بغداد کے علاقے الخدرا میں 1100 پاﺅنڈ ملٹری گریڈ بم کا دھماکہ کرنا تھا۔ ان کی فیلکن ٹیم اپنے کام کے لئے پہلے ہی تیار تھی،مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ اس بار داعش نے بارودی مواد لیجانے والی گاڑی میں خفیہ آلات لگارکھے تھے جن کے ذریعے ان سب کی آواز سنی جارہی تھی۔ جب کیپٹن حارث کی فیلکن ٹیم راستے میں گاڑی سے بارودی مواد نکال رہی تھی تو ان کی آواز داعش کے سینئر کمانڈروں کو سنائی دے رہی تھی لیکن انہوں نے کیپٹن حارث کو یہ تاثر نہیں دیاکہ حقیقت اُن کے علم میں آ چکی تھی۔
جنوری 2017 میں کیپٹن حارث کو بتایا گیا کہ انہیں ایک اور بم دھماکے کا مشن دیا جا رہا ہے۔ اس مشن کی معلومات کے لئے انہیں بغداد کے شمال میں دارمیہ کے ایک فارم ہاﺅس میں واقع داعش کے مرکز بلایا گیا۔ وہ داعش کے اس مرکز میں داخل تو ہوئے لیکن پھر کبھی واپس نہیں آئے۔ چار دن کے انتظار کے بعد عراقی کمانڈوز نے فارم ہاﺅس پر حملہ کیا جس میں ایک کمانڈو شہید بھی ہوا لیکن کیپٹن حارث کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ اگست2017ءمیں داعش کی جانب سے ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں چار افراد کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر انہیں قتل کرنے کا منظر دکھایا گیا تھا۔ عراقی انٹیلی جنس اہلکاروں کا خیال ہے کہ ان میں سے ایک کیپٹن حارث تھے۔ اُن کی شہادت کی تصدیق نہیں ہو سکی، لیکن گزشتہ ڈیڑھ سال سے کوئی ایسے شواہد بھی سامنے نہیں آئے جن سے معلوم ہو سکے کہ وہ زندہ ہیں ۔