کراکس(سچ نیوز) تیل کی دولت سے مالامال ممالک میں روپے پیسے کی بھی ریل پیل ہوتی ہے لیکن شمالی افریقہ کا ملک وینزویلا ایسا ملک ہے جس کے پاس تیل کے سب سے بڑے ذخائر ہیں لیکن اس کے عوام میں غربت کا یہ عالم ہو چکا ہے کہ وہاں کی لاکھوں خواتین بیرون ملک جا کر جسم فروشی پر مجبور ہو چکی ہیں۔ میل آن لائن کے مطابق 2015ءسے اب تک وینزویلا کے 19لاکھ سے زائد شہری مالی بدحالی سے فرار حاصل کرنے کے لیے ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور ان میں اکثریت خواتین کی ہے۔ ان میں ٹیچرز، پولیس آفیسرز اور دیگر اعلیٰ شعبہ جات سے وابستہ خواتین بھی شامل ہیں لیکن ملک کے بدترین مالی بحران کے باعث اپنے خاندان کی کفالت کے لیے ان کے پاس جسم فروشی کے سوا کوئی راستہ نہیں رہا۔رپورٹ کے مطابق ان خواتین اکثریت کولمبیا اور دیگر امریکی ممالک میں جا کر نائب کلبوں میں برہنہ ڈانس اور جسم فروشی کے دھندے سے منسلک ہو چکی ہیں۔ وینزویلا کو مالی بدانتظامی اور کساد بازاری کا شکار ہوئے 4سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں یہ انتہائی خطرناک خبر سنائی ہے کہ اس سال وینزویلا میں افراط زر کی شرح میں حیران کن طور پر 14لاکھ فیصد ہو گا اور 2019ءمیں یہ شرح 1کروڑ فیصد تک پہنچ جائے گی۔ماہر نفسیات جان جیمز کا کہنا ہے کہ ”کولمبیا جا کر جسم فروشی پر مجبور ہونے والی وینزویلین خواتین ڈپریشن، ذہنی دباﺅ اور دیگر سنگین دماغی عارضوں اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔“30سالہ تین بچوں کی ماں پیٹریشا بھی ان خواتین میں سے ایک ہے، جو کلیمر کے ایک قحبہ خانے میں جسم فروشی کر رہی ہے۔ وہاں اسے شراب کے نشے میں دھت ’گاہک‘ کئی بار جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنا چکے ہیں۔26سالہ الیجریا نامی لڑکی بھی کلیمر کے ایک قحبہ خانے میں جسم فروشی کر رہی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ وینزویلا میں ٹیچنگ کی نوکری کرتی تھی۔ وہ ایک سکول میں ہسٹری اور جیوگرافی پڑھاتی تھی لیکن اسے وہاں سے صرف 3لاکھ 12ہزار بولیوار(وینزویلا کی کرنسی)ملتے تھے جو ایک ڈالر سے بھی کم رقم ہے۔ اس سے ایک پاستہ بھی نہیں آتا تھا۔ میں دو بچوں کی ماں بھی تھی لہٰذا مجھے اپنے بچوں کو روٹی دینے کے لیے یہاں آ کر جسم فروشی پر مجبور ہونا پڑا۔یہاں میں ایک رات میں 11سے 16ڈالر کما لیتی ہوں۔“