قیام پاکستان کے وقت معاشی عدم استحکام ہونا تو قدرتی بات ہے لیکن بعد میں آنے والی حکومتوں نے باوجود بلند بانگ دعووں کے اقتصادی ترقی کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اگرچہ کچھ حکمرانوں نے کچھ کوشش بھی کی، ترقیاتی منصوبے بنا ئے لیکن اکثر پروگرام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے اور ناکامی کا شکار ہوگئے جس کی کئی وجوہات ہیں لیکن خاص وجہ حکمرانوں اور افسر شاہی کی شاہ خرچیاں اور بدعنوانی ہی تھی کہ ملکی معیشیت کیلئے شروع کئے گئے منصوبے مطلوبہ اھداف حاصل نہ کرسکے۔
پھر وقتاً فوقتاًبھاری غیر ملکی قرضے بھی لئے گئے جن میں عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور ترقی یافتہ مما لک کے کنسورشیم شامل ہیں۔اور اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ ملکی ترقی کیلئے ہر بڑا منصوبہ عالمی اداروں سے قرض لیکر ہی شروع کیا جا تا ہے جو کبھی بھی وقت مقررہ پر مکمل نہیں ہوتا اور قرضہ سودو رسود بڑھتا جا تا ہے اور جیسے ہی کوئی حکومت بدل جاتی ہے تو وہ منصوبے بھی ادھورے رہ جاتے ہیں اور پھر نئی آنے والی حکومت نئے منصوبے شروع کرتی ہے اور نئے قرضے لئے جا تے ہیں۔
نتیجتاً ملک جو پہلے ہی مقروض ہے مزید قرضوں میں جکڑتا جا تا ہے۔ یہ سلسلہ کئی سال سے جاری ہے جس پر کوئی خلوص سے کوشش نہیں کرتا۔اس سلسلے میں ماضی میں باتیں تو بہت کی گئیں مثلاً”کشکول توڑ دیا ہے”۔ "قرض اتارو ملک سنوارو” وغیرہ لیکن کوئی قابل عمل قدم نہیں اٹھا یا گیا حکومت کے سربراہوں کے غیر ملکی دوروں میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ سرکاری افسران کی شاہ خرچیاں بھی دن بدن بڑھتی جارہی ہیں۔
دعوے تو بڑے ہوتے ہیں لیکن اخراجات کو کنٹرول کرنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی جا تی۔دوسری طرف دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے حکومتی معاملات پر نظر ڈالی جا ئے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں ملکی کاروبار حکومت چلانے کیلئے چند وزراء ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں 40 سے 50 تک وزرا ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک غور طلب بات یہ ہے کہ اٹھارویں (18) ترمیم کے تحت جو صوبوں کو وزارتیں اور محکمے دیئے گئے تھے اور مرکز میں تقریباً20 وزارتیں رہ گئی تھیں لیکن بعد میں کئی نئی وزارتیں وجود میں آچکی ہیں اور ان کی تعداد پھر سے وہی پہلے والی پوزیشن سے بھی آگے نکل گئی ہے جس کامقصد بظاہر یہ تھا کہ عوام کے مسائل بڑھ گئے ہیں اس لئے ان کو حل کرنے کیلئے دفاتر بڑھا ئے جا رہے ہیں۔
لیکن افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ عوام کے مسائل تو کم ہونے کی بجائے بڑھ گئے ہیں۔بیرونی قرضے بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے منصوبے جو ملکی ترقی کیلئے ہوتے ہیں لیکن ان میں بھاری کمیشن وغیرہ کا لین دین لازمی ہوگیا کیونکہ ٹھیکیداری نظام میں تو یہی ہوتا ہے اور پھر منصوبے وقت پر مکمل بھی نہیں ہوتے۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیرونی قرضے جو 2017 کی پہلی سہ ماہی (جنوری۔
مارچ) تک 75747 ملین امریکن ڈالر تھے ، دوسری سہ ماہی (اپریل۔ جون)تک 82981ملین امریکن ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔بیرونی قرضوں کے سلسلے میں ایک اہم بات جو کہ کم لوگ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ قرضے دینے والے غیر ملکی ادارے (اور ان کی حکومتیں) جب کسی ملک کو قرضہ دیتے ہیں تو ایک شرط یہ لگاتے ہیں کہ منصوبے کیلئے ماہرین اور فنی عملہ ان کا ہوگا منصوبہ کی مدت پوری ہونے تک اس ملک میں رہیں گے جہاں منصوبہ شروع کیا جا ئے گا اور معاہدے کے مطابق ان ماہرین کو بھاری تنخواہیں اور مراعات دی جا ئیں گی جس پر تقریباً 40 سے 50 فیصد رقم خرچ ہوگی اور قرضہ لینے والے ملک کو بقیہ رقم ملے گی جس سے منصوبہ مکمل کیا جا ئے گا لیکن واپسی پوری رقم کی اور وہ بھی سود رسود ادا کرنا ہوگی۔
اب اس سے یہ اندازہ بخوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ بیرونی قرضے کس طرح ملتے ہیں اور ادائیگی کیسے ہوتی ہے پھر بھی ہم اس مسئلے کو غیر اہم سمجھ کر حل کرنے کی کوشش نہیں کررہے۔
اس سلسلے میں مندر جہ ذیل گزارشات اور تجاویز پیش خدمت ہیں۔
1) ایک اعلیٰ سطحی کمیشن قائم کیا جائے جو بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں کے جواز ، افادیت اور نقصانات کا جائزہ لے کر آئندہ کیلئے جامع حکمت عملی بنانے کیلئے ٹھوس اور قابل عمل تجاویز مرتب کرے (اس کمیشن میں عوامی نمائندگان ، صنعت و تجارت، اعلیٰ عدالتوں سے ماہرین معاشیات میں سے وسیع تجربہ رکھنے والے لوگ ارکان شامل ہوں)اس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں حکومت ہنگاہی بنیادوں پر غیر ملکی قرضوں سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کرنے اور ملکی معیشیت کے استحکام کیلئے کام شروع کرے۔
2)حکومتی اخراجات میں 40 فیصد کمی کی جا ئے اور عوام کو بھی کفایت شعاری کیلئے تیار ہونا چاہیئے۔
3)ان اقدامات کے نتیجے میں ہونے والی بچت سے قرضوں کی ادائیگی فوری طور پر شروع کردی جائے۔
(4)ملکی وسائل کو ترقی دی جا ئے جس میں زراعت ، صنعت و تجارت اور معدنی وسائل جیسے اہم شعبوں کی ترقی پر خصوصی توجہ دی جا ئے اور اس سلسلے میں ایک واضح اور قابل عمل پالیسی بنا کر کام شروع کیا جا ئے تو انشاء اللہ چند برسوں میں ملک قرضوں کے بوجھ سے آزاد بھی ہوجا ئے گا اور موجودہ غیر مستحکم معیشیت استحکام کی راہ پر گامزن ہوسکے گی۔