اسلام آباد: (سچ نیوز) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سخت گیر اور معتدل لوگوں میں تقسیم ہیں۔ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں اختلافات کے باوجود کام کرتی رہتی ہیں۔
دنیا نیوز کے پروگرام ”دنیا کامران خان کے ساتھ“ میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے وزیراعظم کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان بھی سانحہ اے پی ایس پر آل پارٹیز کانفرنس میں شامل ہوئے تھے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارتی جارحیت پر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے مثبت جواب دیا تھا، تاہم دونوں جماعتیں سخت گیر اور معتدل لوگوں میں تقسیم ہیں۔ شہباز شریف اور آصف علی زرداری کو ٹیلی فون پر بات کرنے اور سب کچھ طے کرنے بعد خط ارسال کیا تھا۔ ہو سکتا ہے ان کی جماعتوں میں اس پر اتفاق رائے پیدا نہ سکا ہو۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کا باقاعدہ جواب آ گیا ہے کہ ابھی مل بیٹھنے کے حالات نہیں ہیں جبکہ شہباز شریف نے بھی ایک طرح سے اپنی معذوری کا اظہار کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے سیاسی حصہ پر اتفاق رائے کی فوری ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے عسکریت پسند تنظیموں کیخلاف بیانات دیے۔ میرا موقف تھا کہ بلاول کی رائے پر مل کر بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں۔ میں نے کہا کہ پارلیمانی لیڈرز کو اعتماد میں لیں، وہ اپنی جماعتوں کو آگاہ کریں۔ اگر پارلیمانی جماعتیں اس معاملے کو اسمبلی میں لانا چاہیں تو ایسا کیا جا سکتا ہے۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ اسمبلی میں حزب اختلاف کے رویے پر عمران خان کو مایوس ہوئی۔ ہم سے مطالبہ تھا کہ پی اے سی قائد حزب اختلاف کو دینی چاہیے لیکن سندھ میں پی اے سی کی سربراہی اپوزیشن لیڈر کو کیوں نہیں دی گئی؟
انہوں نے کہا کہ جمہوریت اور سیاست ممکنات کو سامنے لانے کا نام ہے۔ ہم نے کرتارپور پر کابینہ کی ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے جبکہ آزاد جموں وکشمیر میں کوریڈور کیلئے بھی ہماری سوچ مثبت ہے۔ ضروری ہے کہ بھارت لائن آف کنٹرول پر فائرنگ بند کرے۔