نئی دہلی (سچ نیوز) پلوامہ حملے کے بعد سے بھارت میں انتہاءپسندوں نے پاکستان مخالفت کے کئی واقعات سامنے آتے ہیں اور اس معاملے پر آزادی رائے کا حق استعمال کرنے والے بھارتی اداکاروں کو بھی جان سے مارنے اور زیادتی کا نشانہ بنانے جیسی دھمکیاں دی جانے لگی ہیں۔بھارت کے معروف ٹی وی رئیلٹی شو ”بگ باس “ سیزن 11 کی فاتح شلپا شندے نے انکشاف کیا ہے کہ پلوامہ حملے سے متعلق پاکستانی فنکاروں اور سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو کے موقف کی حمایت پر مجھے قتل کرنے اور زیادتی کا نشانہ بنانے جیسی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔مزاحیہ ٹی وی شو ” بھابھی جی گھرپر ہیں “ میں انگوری بھابھی کے نام سے شہرت پانے والی شلپا نے حال ہی میں سیاست کے میدان میں بھی قدم رکھا اور وزیراعظم نریندر مودی کی سب سے بڑی مخالف جماعت کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے۔
اداکارہ کا کہنا ہے کہ پلوامہ حملے پر اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے سدھو نے جو کچھ کہا ، مجھے اس میں کچھ غلط نہیں لگا۔ اداکارہ کا موقف سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو انہیں دھمکیاں ملنے لگیں۔شلپا کے مطابق آن لائن دھمکیاں دینے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔واضح رے کہ 14 فروری کو پلوامہ میں کار خود کش حملے میں 40 سے زائد بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے الزامات پاکستان پر عائد کئے تاہم بھارتی ریاست پنجاب کے وزیراور سابق کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو نے کہا کہ پلوامہ واقعے پر پاکستان کو قصور وار نہیں ٹھہرایا جاسکتا، پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری رہنے چاہئیں۔انہوں نے یہ سوال بھی اٹھا اکہ کیا چند لوگوں کی وجہ سے کرتار پورراہداری پرسوالیہ نشان لگ جائے گا؟ بابا گرونانک کے فلسفے کو کوئی ایک انچ بھی نیچے نہیں کرسکتا۔ شلپا شندے نے بھی نوجوت سنگھ سدھو کے موقف کی حمایت کی اور کہا کہ میں اس نئے رجحان کے سخت خلاف ہوں کہ اگر کسی کا نظریہ آپ سے مطابقت نہیں رکھتا تو اس پرپابندی عائد کردی جائے۔ بالی ووڈ میں پاکستانی فنکاروں کے کام کرنے کا فیصلہ ان کی صلاحیتوں کی بناءپر کیا جانا چاہئے۔اداکارہ نے نوجوت سنگھ سدھو کے موقف کی حمایت میں مزید کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی بھی دہشت گردی کی حمایت نہیں کی، ہوسکتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر اپنے دوست عمران خان کو تنقید کا نشانہ نا بنانے کیلئے ٹھیک ہوں، وہ دونوں برسوں ایک ساتھ کھیلے ہیں، ہر کوئی سدھو کے پیچھے کیوں پڑا ہے کہ وہ پاکستان کو برا بھلا کہیں، سدھو یہ بات کہہ کر چھا گئے کہ اختلافات کو مذاکرات کی میز پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔