(فوجی کا بیوی بچوں کے ساتھ)
بیوی: ہیلو جی کیسے ہیں
آپ فوجی : ٹھیک ہوں تم سناؤ اور بچے کیسے ہیں
بیوی: میں بھی ٹھیک ہوں بچے بھی ٹھیک ہیں سنائیں گھر کب آ رہے ہیں اس عید پہ چھٹی ملے گی یا ہمیشہ کی طرح عید کے بعد آؤ گے
فوجی :(ٹھنڈی سانس لے کر) شاید نہیں آ سکوں گا یار
بیوی: بچے روز پوچھتے ہیں اور میں روز جھوٹ بولتی ہوں. کل گلی میں عمر اپنے سب دوستوں کو بتا رہا تھا کہ میرے پاپا اس عید پہ ضرور آئیں گے
فوجی : عمر کہاں ہے میری بات کراؤ
بیوی: (عمر ادھر آؤ تیرے پاپا کا فون ہے) عمر: میں بات نہیں کرتا پاپا گندے ہیں وہ مجھے ملنے نہیں آتے اتنے دن پتہ نہیں کہاں رہتے ہیں
بیوی: بیٹا لو بات کرو پاپا ہیں تمہارے شاباش بات کرو
عمر: جی پاپا کیسے ہیں آپ
فوجی : ٹھیک ہوں بیٹا تم کیسے ہو اور کیوں ناراض ہو اپنے پاپا سے
عمر: پاپا آپ کہاں ہیں آپ میرے سکول رزلٹ پہ بھی نہیں آئے اب عید آنے والی ہے آپ نہیں آ رہے
فوجی : بیٹا میں دور ہوں اسلئے نہیں آ سکتا عید کے بعد میں آ جاؤں گا اپنے بیٹے کو ملنے
عمر: پاپا فہد کے پاپا بھی تو بہت دور رہتے ہیں وہ تو گھر آ گئے ہیں اور پتہ ہے بہت سے کھلونے بھی لائے ہیں میں جب انکے گھر گیا تو مجھے دیکھ کر کھلونے چھپانے لگے اور مجھے کھیلنے بھی نہیں دیا
فوجی : (لرزتی آواز کے ساتھ) بیٹا میں بھی جب آؤں گا تو اپنے بیٹے کے لیے بہت سے کھلونے لاؤں گا
عمر: نہیں پاپا مجھے کھلونے اور پیسے نہیں چاہئیں بس آپ آ جاؤ عید پہ سب بچے اپنے ابو کے ساتھ عید نماز پڑھنے جائیں گے میں کس کی انگلی پکڑ کر جاؤں گا عید پڑھنے
فوجی : (اپنے اشک صاف کرتے ہوئے) بیٹا انشااللہ اگلی عید پہ میں اپنے بیٹے کے ساتھ عید نماز پڑھوں گا (اسکے ساتھ ہی آواز ہچکیوں میں بدل جاتی ہے)
عمر: ہیلو پاپا ہیلو کچھ بولیں نہ کیا ہوا پاپا ہیلو ممامما دیکھیں نا پاپا بات کیوں نہیں کر رہے
فوجی : آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے آنسو پونچھتا اور کال ڈراپ کر دیتا ہے اس پرچم کی قدر صرف وہ جانتے ہیں جو اس میں لپیٹے جاتے ہیں عوام نے تو اسکو صرف سر بلند یا کسی حادثے کے بعد سر نگوں دیکھا ہے یہ ان سے پوچھو جو اس کے لئے سب کچھ چھوڑ کر پاگل کہلاتے ہیں پرچم کی سر بلندی اے لوگو قربانی کے بغیر کبھی نہیں ہوئی تاریخ گواہ ہے