سری نگر(سچ نیوز) پلوامہ حملے کے بعد ایک طرف انتہاءپسند ہندو بھارتی اور کشمیری مسلمانوں کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہیں اور اب مودی سرکار نے بھی اس حملے کا نہتے کشمیریوں سے بدلہ لینا شروع کر دیا ہے۔گلف نیوز کے مطابق پلوامہ حملے کے 10دن بعد بھارتی فوج نے مقبوضہ وادی نے ایک بڑا کریک ڈاﺅن شروع کر دیا ہے جس میں یاسین ملک اور عبدالحمید فیض سمیت درجنوں حریت لیڈروں اور عام کشمیریوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے۔جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین یاسین ملک کو سری نگر کے علاقے میسومہ میں واقع ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا گیا۔ان گرفتاریوں کوبظاہر پلوامہ کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے تاہم بھارتی آئین کے آرٹیکلز 35اے اور 370کے خلاف بھارتی سپریم کورٹ میں آئندہ چند دنوں میں سماعت ہونے والی ہے اور زیادہ تر مبصرین ان گرفتاریوں کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ بھارتی آئین کے یہ آرٹیکلزجموں و کشمیر کے لوگوں کو خاص حقوق اور مراعات دیتے اور بھارتی شہریوں کو جموں و کشمیر میں جائیداد خریدنے جیسے افعال سے روکتے ہیں۔چنانچہ انتہاءپسند ہندو گروہ اور ان کی نمائندہ مودی سرکار ان آرٹیکلز کو ختم کرنا چاہتے ہیں جس کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت اس خدشے میں مبتلا ہے کہ اگر سپریم کورٹ سے ان آرٹیکلز کے خاتمے کا فیصلہ آتا ہے تو اس کے خلاف جموں و کشمیر میں شدید ردعمل سامنے آئے گا چنانچہ اس ردعمل کی شدت توڑنے کے لیے پیشگی اقدامات کے طور پر یہ گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔یہ گرفتاریاں اس بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہیں کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اتحادی کشمیری سیاستدان ساجد لون نے بھی اس پر کڑی تنقید کی ہے اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا ہے کہ ”ایسا لگتا ہے جیسے بھارتی حکومت شکار پر نکل پڑی ہے۔ حکومت کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ 1990ءمیں بھی اس پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی تھیں اور کشمیریوں کو جودھ پور اور دیگر بھارتی جیلوں میں قید کیا گیا تھا لیکن اس سے حالات مزید بگڑے تھے۔ یہ حربہ پہلے سے آزمایا ہوا ہے، لہٰذا بھارت سرکار کو اس سے باز رہنا چاہیے۔ “