بیجنگ (سچ نیوز)ایک مغربی چینی علاقے میں سینکڑوں مسلمانوں نے ایک مسجد کے باہر دھرنا دے رکھا ہے۔ یہ مسلمان اس مسجد کے انہدام کے حکومتی منصوبے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق چین کے مغربی نیم خود مختارعلاقے نِنگ شا کے ہوئی نسل کے مسلمانوں نے ایک مسجد کو مسمار کرنے کے مجوزہ حکومتی منصوبے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ یہ مسجد اس علاقے میں اپنے میناروں اور گنبدوں کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے۔ اس کا انداز تعمیر مشرق وسطیٰ کی مساجد جیسا ہے۔
وائی ڑو شہر کی مشہور قدیمی جامعہ مسجد کو گرانے کا حکومتی نوٹس تین اگست کو جاری کیا گیا تھا۔ حکومت نے اس مسجد کی کمیٹی کو مطلع کیا تھا کہ تعمیر سے قبل اس مسجد کے لیے کوئی باضابطہ تعمیری اجازت نامہ حاصل نہیں کیا گیا تھا۔
مسجد کی انتظامی کمیٹی اور شہری انتظامیہ کے درمیان اس حوالے سے بات چیت کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے تھے۔ انتظامی کمیٹی نے مسلمانوں کو تجویز دی ہے کہ مسجد کے گنبدوں کو مشرقِ وسطیٰ کی مساجد کی طرز کے بجائے چین میں پگوڈا کے دائرہ نما گنبدوں میں تبدیل کر دیا جائے۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی نے یہ تجویز قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
کئی مقامی لوگوں نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ اس مسجد کی انتظامی کمیٹی اور شہری انتظامیہ مزید مذاکرات جاری رکھنے پر متفق ہیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ وائی ڑو شہر کے قریبی دیہات کے مسلمانوں میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔
مقامی مسلمانوں کی ایک سماجی تنظیم نے یہ بھی بتایا کہ حکومت واضح طور پر اس مسجد کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی خواہاں ہے اور اس کی تزئین اپنی مرضی کے مطابق چاہتی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ مقامی مسلمانوں اور حکومت کے درمیان مسجد کے حوالے سے ایک مفاہمت ہو گئی ہے لیکن صورت حال ابھی پوری طور پر واضح نہیں ہے۔مبصرین کے مطابق چینی میں سرکاری طور پر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ عوام کو مذہبی آزادی حاصل ہے لیکن حالیہ برسوں میں مسلم انتہا پسندی کے فروغ کے تناظر میں حکومت نے مسلم اکثریتی علاقوں میں سکیورٹی بڑھا رکھی ہے اور اس مناسبت سے صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلم آبادی کو بھی سخت سکیورٹی انتظامات کا سامنا ہے۔