ضمیر کی آواز
تحریر۔۔۔۔۔ بشریٰ جبیں جرنلسٹ
تجزیہ نگار
یہ وہ خوبصورت آواز ہے جو دل کی گہرائیوں سے قلبی کیفیات کے زور پر اٹھتی ہے اور ہر اس عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے جو انسان اپنے نفس کے بے قابو گھوڑے پر سوار انسانیت کی حدود پھلانگنے کی کوشش کرتا ہے۔اخلاقیات کے بندھن توڑتا ہے ۔ اپنی معاشرتی بداعمالیوں سے معاشرے کے امن اورچین میں خلل پیدا کرتا ہے۔اس کے جھٹکے اس وقت تک لگتے رہتے ہیں جب تک انسان اپنی نفسانی خواہش سے باز نہیں آتا۔کبھی یہ اخلاقی پابندیوں کا واسطہ دیتی ہے ، کبھی گناہ کے فلسفے کو سمجھانے کی کوشش کرتی ہے، کبھی خاندانی شہرت پر داغ لگنے کی دھمکی دیتی ہے ، کبھی ذاتی بے راہ روی کے طعنے دیتی ہے، کبھی آخرت کے عذاب کا خوف دلاتی ہے، کبھی معاشرتی تنقید کا ڈر ذہن میں بٹھاتی ہے، کبھی قانونی حجاب کے پردے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے اورکبھی احتساب کا خوف رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے۔لیکن جب کوئی طریقہ کامیاب نہ ہو ، بے عملی اور بے راہ روی غالب رہے تو جرم گناہ کے ساتھ یہی ندامت کا روپ سامنے لاتی ہے ۔
یہ وہ خیر کا عنصر ہے جو شر پر غالب آنے کی کوشش کرتا ہے۔ندامت کے جھٹکے اور غلطیوں سے توبہ اس کے روپ ہیں جو جرم گناہ کو مسخ کر دیتے ہیں ۔یہ منبع ہے جو انسان کے اندر سے پھوٹتا ہے ۔ یہ دل و دماغ کی وہ کیفیتیں ہیں جو خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔چونکہ انسان دنیاوی طلب میں اس قدر حریص اور بے پرواہ ہوتا ہے ۔ لذت کے شوق اور منعفت میں سبقت لے جانے کے جذبے سے اخلاقی بندھن سے بے پرواہ ، رزقِ حلال اور حرام میں تمیز کئے بغیر آگے بڑھنے میں سبقت ، آسائشات اور خواہشات کے دھارے میں بڑھتا چلا جاتا ہے۔اس طرح انسانی شخصیت میں ضمیر کی طاقت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔جب یہ کیفیت زیادہ طاقتور اور با اثر ہو جائے تو اندر کا انسان مردہ ہو جاتا ہے جو اخلاقی کیفیات کو محسوس نہیں کرتا۔اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہو جاتی ہے۔حلال اور حرام کی پہچان رک جاتی ہے۔لوگوں کی محسوسات کی رسائی کانوں تک پہنچنا بند ہو جاتی ہے۔ یہی معاشرتی اکائی کی بد ترین مثال ہے۔اگر انسان رزق حلال اور حرام میں تمیز کر سکے ، بچوں کی پرورش میں رزقِ حلال کی خواہش کرے، جدوجہد کو شعار بنائے، محنت کی عظمت کو پہچانے تو ضمیر کی بقاء اس کی بداعمالی میں رکاوٹ بنتی ہے۔اس سے انسانیت کی بقا ء اور معاشرتی پھیلاؤ میں خرابیاں کم ہوتی ہیں ۔تسکین ہوتی ہے۔اطمینان قلب ہوتا ہے۔ہر عمل میں انصاف کا عنصر نظر آتا ہے۔شرم و حیاء کا حجاب، اچھے برے کی تمیز، اچھائی اور برائی کا پیمانہ ، نیکی اور بدی کا احساس ، ٹھیک اور غلط کی سوچ، حق اور نا حق کی پہچان، یہ زندگی کو پرکھنے کے آلے ہیں جو ضمیر کی زندگی سے اپنا وجود قائم رکھتے ہیں ۔اندر کے انسان کا باہر کے انسان پر حاوی ہونا، معاشرتی خرابیوں اوربرائیوں کی راہ میں رکاوٹ کا بہترین آلہ ہیں ، اس کی بناوٹ میں بہترین کردار جہاں ماں کی گود، معاشرتی ماحول ہیں وہاں یہ کام مدرسوں اور دینی تعلیمات کا تھا۔نہ جانے اب یہ اثرات کیوں مٹتے جا رہے ہیں ۔
جن چراغوں سے تعصب کا دھواں اٹھتا ہو
ان چراغوں کو بجھا دو تو اجالے ہوں گے
کوئی تو ہو جو قربانی دے‘ ایثار کرے‘ہمت باندھے‘راستہ کی نشان دہی کرے‘معاشرہ بدلنے سے منزلیں بدلتی ہیں ۔ہم میں سے ہر ایک کو سوچنا ہوگا، دیکھنا ہو گا، ایثار کرنا ہوگا اور قربانی کے جذبے سے آگے بڑھنا ہوگا۔
یہ زمین کی زرخیزی اس میں دفن خزانوں کے کھوج کی کس نے راہ دکھلائی۔ جب یہ سب کچھ مالک کائنات کی عطاء ہے تو انسان میں انسانیت کیوں نہیں ۔ ہم اس کائنات میں خوبصورتی کا رنگ بھرنے کی بجائے کیوں گندگی پھیلا رہے ہیں ۔ اس ذات مقدس نے ہمیں سب کچھ دینے کے باوجود انسانیت کی بقا ء کے لئے ہمیں تعلیم دی۔کردار کی درستگی کے لئے انسانوں میں انبیاء بھیجے۔انبیاء کی ابتداء حضرت آدم ؑ سے شروع ہوئی اور انتہا حضرت محمد ﷺ پر آ کر ہوئی۔بدقسمتی سے اس کے بعد کئی لوگوں نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا لیکن یہ ایک اٹل فیصلہ ہے کہ اس کائنات کے آخری نبی محمد مصطفیﷺ ہی ہیں ۔ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت آدم ؑ سے لے کر حضرت محمد ﷺ تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس کائنات میں تشریف لائے۔انبیاء کے بعداولیاء اور صوفیا ء کا دور شروع ہوتا ہے۔پہلے ولی حضرت علی کرم علی وجہہ ٹھہرے اور پھر ان کی لڑیاں اور کرنیں بکھرتی چلی گئیں ۔ ان کے کردار کی روشنی ہماری رہنمائی کے لئے نمونہ بنی۔پھر معاشرتی پیچیدگیوں کے ساتھ ساتھ ہمیں دینی وسعت دی گئی۔ ضابطے بنانے کی اہلیت دی گئی۔ان پر عمل پیرا ہونے کے لئے انتظامی چھتری دی گئی۔رزق حلال کے حصول کے لئے تمام اجزاء انسانی مکمل دئیے گئے۔سوچ کے دائرے ، کون و مکاں کی گہرائیوں کو جاننے کی اہلیت دی گئی۔کہاں ہیں وہ خلوص کے رشتے جنہوں نے اخوت اور محبت کی بنیاد رکھی، کہاں گئے وہ گنج ہائے گراں مایہ جنہوں نے درس انسانیت دیا۔ہماری زندگیاں دوسروں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں ۔ ہم انسانیت کو مجبور بنائے ذاتی اغراض کی رو میں کیوں بہتے جا رہے ہیں ؟ہم مجبوریوں کی زنجیروں میںجکڑے ہوئے ہیں ۔ہم رسم و رواج کے پابند اس لئے ہیں کہ لوگ ہمیں بڑا سمجھیں۔ ہم نمائش کے پابند اس لئے ہیں کہ لوگ ہمیں اپنی اصلیت سے بڑھ کر جانیں ۔ہم جھوٹ کا سہارا اس لئے لیتے ہیں کہ سچائی سے ہمیں ڈر لگتا ہے۔ہم تعریف سننا اس لئے پسند کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت میں اس بات کی کمی ہوتی ہے۔ہم قانون کو اس لئے توڑتے ہیں کہ لوگ ہمیں قانون سے بالاتر سمجھیں ۔ہم لوٹ مار اس لئے کرتے ہیں کہ دولت کے بغیر ہم شخصیت کو نامکمل پاتے ہیں ۔ہم انصاف اس لئے نہیں کرتے کہ رزق حرام نے ہمارے ضمیر مردہ کر دئیے ہیں ۔ ہم دوسروں کو اپنانے کی کوشش اس لئے کرتے ہیں کہ ہماری شخصیت نامکمل ہوتی ہے۔ہم میں خود احتسابی نہیں ۔زندگی کے سفر میں جب نظر پڑتی ہے تو عجب تصویر سامنے آتی ہے۔میں جوشِ صحافت میں بہت کچھ لکھنا چاہتی تھی لیکن کالم کا دامن تنگ پڑتا جا رہا ہے۔آج ہم اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ وسائل کم اور مسائل زیادہ ہو گئے ہیں اور یہ مسائل صرف معاشی نہیں بلکہ غیر ضروری بھی ہیں ۔اب محبتیں صرف کم نہیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں اور نفرتوں میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔رشتوں کی کشش بھی مال و زر سے ناپی اور تولی جا رہی ہے۔آٸیں آج بھی ہم غور کریں کہ ہم نے کہاں کا قصد کیا اور کہاں چل پڑے۔