لاہور (سچ نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے عام انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں لیں اور اب حکومت بنانے کیلئے جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ دیگر سیاسی جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی اور نتائج میں تاخیر پر خوب واویلا کیا اور اپنے اپنے موقف پر ڈٹی ہیں۔
25 جولائی کی رات انتخابات کیوں تاخیر کا شکار ہوئے؟ اس بارے میں مختلف موقف سامنے آ چکے ہیں مگر اب ریٹرننگ افسر کے طور پر فرائض سرانجام دینے والی خاتون ”رقیہ اکبر“ نے ساری حقیقت بیان کر دی ہے جس کے بارے میں جان کر یقینا آپ کو بھی تاخیر کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
رقیہ اکبر نے نجی ویب سائٹ ”دانش“ پر شائع ہونے والی تحریر میں لکھا ”اپنے خوبصورت گھر کے پرسکون لاﺅنج میں، جہازی سائز کے آرام دہ صوفے پر بیٹھ کر، دیوار میں نصب بڑی سی سکرین پر انتخابی نتائج سننا کتنا پرلطف مشغلہ ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ پرلطف مشغلہ اس پہ تنقید اور اعتراضات کرنا۔
آپ میں سے اکثر اس پرلطف سرگرمی سے لطف اندوز ہوئے ہوں گے۔ اپنی اپنی پسند کے امیدوار اور پارٹی کی کامیابی پہ جشن بھی منایا ہو گا۔ نتائج پر تاخیر کی صورت میں یا من پسند نتیجہ نہ آنے پر انتخابی عملے پر نا اہلی اور الیکشن کمیشن پر بدعنوانی کے الزامات لگا کر گالیوں سے بھی نوازا ہو گا۔ فتوے بھی لگائے ہوں گے۔ مگر کیا کبھی یہ سوچا کہ ان نتائج کو آپ تک پہنچانے میں کتنی بڑی انسانی مشینری نے دن رات کام کیا اور پس پردہ کام کرنے والوں کو کس کس مشکل مرحلے سے گزرنا پڑا ہو گا، میں آپ کو سب بتاتی ہوں۔
25 جولائی کو انتخابی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے اور ذمہ داری کی ادائیگی کیلئے گھر سے صبح پانچ بجے گھر سے روانہ ہوئی۔ دن بھر پوری ایمانداری کیساتھ فرائض منصبی ادا کرنے کے بعدرات کو تقریباً ساڑھے بارہ بجے پولنگ سٹیشن سے انتخابی نتائج لے کر سیشن کورٹ جانے کیلئے نکلی۔ سڑکوں پر کچھ غیر سرکاری نتائج سن کر متوقع جیت کی خوشی میں تھرکتے گاتے منچلے موجود تھے جواپنی فتح کے جوش میں سڑک کے بیچوں بیچ دھمالیں ڈال رہے تھے۔ دوسری طرف انتخابی نتائج کو ریٹرننگ آفیسرز تک بخیر و عافیت پہنچانے کی تگ ودو میں مصروف سرکاری ملازمین کی لاتعداد گاڑیاں۔ ایسے میں ہماری گاڑی چیونٹی کی رفتار سے رینگ رہی تھی۔ چاروں طرف پولنگ باسکٹس، سفیدلمبی لمبی اور چوڑی سکرینیں نظر آ رہی تھیں۔ گاڑیوں میں، بسوں اور ویگنوں میں، حتی کہ موٹرسائیکلز اور رکشوں پر بھی آج صرف سبز اور سفید تھیلوں کی بہار تھی اور ان تھیلوں کی رکھوالی کرتے پریذائڈنگ آفیسرز، جن کے چہرے تھکن اور بھوک سے مضمحل دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں کثیر تعداد خواتین کی بھی تھی جن میں سے ایک میں بھی تھی۔
ہر فارم کی مکمل جانچ پڑتال کی گئی ووٹرز کی تعداد، پولڈ ووٹ، ضائع شدہ ووٹ، ہر ایک امیدوار کے انفرادی ووٹ سب کو گن کر، پریذائڈنگ، اسسٹنٹ پریذائڈنگ اور متعلقہ سٹاف کے دستخط غرض ایک ایک چیز کی باریک بینی سے چھان پھٹک کی گئی۔
خدا خدا کر کے رات کے ڈھائی بجے ہم سیشن کورٹ پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ دو ڈھائی ماہ سے مستقل جانفشانی سے اپنے فرائض ادا کرنے والا سیشن کورٹ کا سٹاف، جو پچھلے تین دنوں سے دن رات جاگ کر کام میں مصروف تھا، آج بھی مستعدی سے فرائض منصبی ادا کر رہا تھا۔ بے پناہ تھکن کے آثار ان کے چہروں سے نمایاں تھے مگر احساس ذمہ داری انہیں خود پر توجہ دینے سے روک رہی تھی۔ اس انتھک محنت اور شبانہ روز کام کے بوجھ کے باوجود مجال جو ماتھے پر ایک بھی شکن آپ کو دکھائی دیتی۔ خوش دلی سے سامان وصول کرتے ہوئے انہیں جہاں جہاں کوئی کمی محسوس ہوئی ایک بہترین ساتھی کی طرح ہماری رہنمائی کی اور سامان کی وصولی کی رسید میرے ہاتھ میں تھما کرریٹرننگ افسر کے کمرے کی طرف بھیج دیا۔
ہال پریذائڈنگ آفیسرز اورسیشن کورٹ کے عملے سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہر شخص باری باری اپنے حلقے کا نتیجہ جمع کرا رہا تھا اور سب ہی کی خواہش تھی کہ اسے سب سے پہلے اس ذمہ داری سے سبکدوش کیا جائے۔ میرے حلقے کے ریٹرننگ آفیسر اپنے تمام سٹاف کے ساتھ وہاں موجود تھے اور فرداً فرداً ہر ایک سے مسکراتے چہرے کے ساتھ رزلٹ وصول کر رہے تھے۔ نیشنل اسمبلی کا نتیجہ (سیل شدہ فارم 45 اور 47) جمع کرانے کے بعد صوبائی اسمبلی کا نتیجہ جمع کروانے دوسرے ڈیسک پہ آئے۔ یہاں معاملہ قدرے مشکل تھا سہولتیں اور سٹاف کم ہونے اور نتائج جمع کرانے والوں کی لمبی قطار کی وجہ سے کچھ دشواری ہوئی مگر تھکن سے چور عملے کے چہرے پہ وہی مسکراہٹ اور اپنائیت۔ اس سارے پراسس میں تقریباً دو گھنٹے لگے۔ ہر فارم کی مکمل جانچ پڑتال کی گئی ووٹرز کی تعداد، پولڈ ووٹ، ضائع شدہ ووٹ، ہر ایک امیدوار کے انفرادی ووٹ سب کو گن کر، پریذائڈنگ، اسسٹنٹ پریذائڈنگ اور متعلقہ سٹاف کے دستخط غرض ایک ایک چیز کی باریک بینی سے چھان پھٹک کی گئی اور بعد از تسلی ہمیں جانے کی اجازت دی گئی۔ اس سارے عمل کے بعد ایک بار پھر پرہجوم ٹریفک سے ہو کر میں کوئی صبح چار ساڑھے چار بجے گھر پہنچی۔
گھر میں داخل ہوتے ہی ٹی وی سکرین پرمیڈیا کے نمائندوں اور سیاسی شعبدہ بازوں کی طرف سے انتخابی نتائج پہ تاخیرکا رونا روتے اور الیکشن کمیشن پہ برہم ہوتے دیکھا تو یقین مانئے دل سے بے اختیار نکلا ”کون لوگ ہو بھئی تسی ؟؟؟“
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔۔۔۔ اور اس باعث تاخیر کی فہرست بہت لمبی ہے جو میں آپ کے پاس لے کر آئی ہوں۔ ہمارے لئے الیکشن ڈیوٹی کا آغاز 25 جون سے شروع ہوتا ہے جب شدید گرمی اور سانس دو بھر کر دینے والی حبس میں ٹریننگ لی۔ دو دن کی اس ٹریننگ میں ہر بات سکھائی گئی اور عملی مشقیں کروائی گئیں، پھر آر او کے دفتر سے آرڈرز وصول کئے گئے، سٹیشن نہ چھوڑنے کی ہدایات کی وجہ سے کئی اہم امورکو پس پشت ڈالا۔ ایک دن حلف اٹھانے گئے۔ ایمانداری، شفافیت، فرض شناسی اورغیر جانبداری کا حلف۔ سامان وصول کرنے کیلئے پسینے میں شرابور مختلف کاﺅنٹرز پرقطاروں میں لگے رہے، اپنے اپنے سٹیشنز تک سامان پہنچانے کے بعد، بعد از مغرب گھر پہنچنے تک کس کس مشکل اور تکلیف دہ مرحلوں سے گزرے کاش اس کا ادراک ہوتا ان نام نہاد مبصرین اور فیس بکی دانشوروں کو۔۔۔۔ جناب آپ ہی اپنی اداﺅں پہ ذرا غور کریں۔
اپنے بیس سالہ ملازمت کے دورانئے میں یہ چوتھا الیکشن تھا جس میں میں نے پریذائڈنگ کے فرائض سر انجام دیئے مگر یہ الیکشن پہلے تمام الیکشنز سے بہت سے حوالوں سے مختلف اور بہتر تھا۔ بہتری کی گنجائش یقینا ًہمیشہ موجود ہوتی ہے اور دھاندلی کے امکانات کو بھی ہرگز رد نہیں کیا جا سکتا مگر کسی بڑے پیمانے پر دھاندلی کے امکانات آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ ہر پولنگ سٹیشن پر ہر امیدوارکے ایجنٹس کے سامنے ووٹوں کی گنتی اور فارم 45 کی تصدیق شدہ کاپی مہیا کی گئی۔ جہاں فارم 45 نہیں دئیے گئے یا ایجنٹس کو باہر نکال دینے کے الزامات عائد کئے گئے عین ممکن ہے کچھ گڑ بڑ ہو۔ مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے اس تصویر کا ایک پہلو اور بھی ہے جس پہ نظر ڈالنا بہت ضروری ہے۔ بہت سی جگہوں پہ ایجنٹس جلد از جلد سٹیشن چھوڑنا چاہتے تھے انہیں فارم 45 سے کوئی غرض نہیں تھی۔ وہ فارم لئے بنا ہی سٹیشن چھوڑ گئے۔ خود ہمارے سٹیشن پر میں نے اور میرے سٹاف نے بہت ہی مشکل سے ایجنٹس کو روک کے رکھا۔ اور کئی ایک سٹیشنز پر ایک امیدوار کے ایک سے زیادہ ایجنٹس تھے جنہیں باہر بھیجنا قانوناً درست تھا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن سے کچھ کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ہم پریذائڈنگز کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا بالخصوص سامان کی وصولی کے حوالے سے مگر بحیثیت مجموعی ان انتخابات کے شفاف ہونے میں شک و شبہات کی گنجائش بہت کم ہے۔
آر ٹی۔ ایس کی ناکامی ایک سوالیہ نشان ہے نادرا اور الیکشن کمیشن کی اہلیت پہ مگر اسے بھی کافی حد تک حل کرنے کی کوشش کی گئی اور پریذائڈنگز کو فارم 45 کی تصویر واٹس ایپ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اب چونکہ یہ ہاتھ سے پر کیا گیا انگوٹھے کے نشان والا فارم ہے جس کی تصویر پریذائڈنگ کے موبائل میں بھی محفوظ ہے، اس میں ایڈیٹنگ ممکن ہی نہیں۔ اس سارے عمل کے بعد اس بات کے امکانات بہت ہی کم ہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پہ نتائج میں رد و بدل کیا جا سکے۔