تحریر : زھرہ افتخار
عنوان : خواجہ سرا
آسمان نے کالےبادلوں کی چادر اوڑھ رکھی تھی،ٹھنڈی ہوا، مٹی کی خوشبو،اور چھم چھم ہوتی بارش نے موسم کو خوشنما بنا رکھا تھا۔ایسے میں وہ کرسی کو چارپائی کےساتھ لگاۓ بیٹھااپنی نیلو باجی جو اس وقت بخار میں جل رہیں تھی کے سرپر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھ رہا تھا۔لیکن بخار تھا کے تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اب کے اس نے پٹی سر پر رکھتے ہوۓ نیلو باجی سے کہا باجی اب ضد چھوڑ بھی دے دیکھ نا رات سے دن ھوگیا لیکن تیرا بخار کم نہیں ہورہا تیری یے ریشم تیرے لۓ پریشان ہے میری مان لے میں ڈاکٹر کو بلا لاتی ھوں تیرے لۓ۔ ریشم کی بات سن کر نیلو باجی نے ذرا سی آنکھیں کھول کر ریشم کی جانب دیکھا پھر لرزتی ہوٸ آواز میں بولیں ارے اتنی بارش میں ڈاکٹر کیسے لاۓ گا ریشم؟ پھر کچھ دیر ٹہر کر بولیں اچھا یوں کر اس میں ایک کالا بٹوا ہے میرا وہ لے آ اس نے سامنے رکھی لکڑی کی میز کی دراز کی طرف اشارہ کیا جس کی لکڑی بارش کے پانی اور سیلن سے پھول گٸ تھی۔ ریشم نے اس کے ھاتھ کے اشارے میں دیکھا اور اٹھ کر دراز سے کالا بٹوا لا کر نیلو کو تھما دیا۔ نیلو نے بٹوے میں کچھ ٹٹولا پھر ایک پرچی نکال کر اسے تھما دی۔ اس نے پرچی کھولی، پرچی کے درمیانی حصے میں گہری سی شکن تھی جو بتارہی تھی کے پرچی عرصہ پرانی ہے اس کا کاغذ نرم تھا اور اس کی لکھاٸ ماند تھی۔ اب اسنے سوالیاں نظروں سے نیلو کی جانب دیکھا۔ نیلو بولی اس میں دوا لکھی ہے یاد ہے پچھلی برسات بھی بلکل ایسے ہی تیری نیلو باجی چارپائی پر پڑگٸ تھی۔ پھر اسی دوا کے کھانے سےاٹھ کھڑی ہوٸ تھی، قریب کا دوا خانہ کھلا ھوگا وہاں سے یہ لے آ۔ ریشم نے سر ہلایا اور کمرے کی جانب گیا لیکن جب الماری کے قریب کھڑکی کے پاس رکھے اپنے بٹوے کو اٹھایا تو وہ پانی سے شدید گیلا تھا اس نے بٹوے میں رکھے پیسوں کو دیکھا تو سب نوٹ گیلے اور نرم ہوکر خراب ہو گۓ تھے اب اس نے حیرت سے سر اٹھا کر کھڑکی کی طرف دیکھا جو کھلی ھوٸ تھی اب اس نے زور سے اپنا دایا ھاتھ اپنی پیشانی پر مارا اف! وہ رات کو نیلو کی طبیعت کی پریشانی میں یہ کھڑکی بند کرنا ہی بھول گیا اور رات بھر سے ھونے والی بارش کی بوچھاڑ نے کھڑکی کے پاس رکھے اس کے بٹوے اور اس میں رکھے نوٹوں کو بھگو کر خراب کر دیا تھا۔لیکن اب وہ دوا کیسے لاۓ گا اور وہ جانتا تھا کے نیلو سے پیسو کا کہنا مناسب نہیں کیونکہ دو دن سے نیلو کی ناساز طبیعت کی وجہ سے وہ اور نیلو پھول اور بسکٹ بیچنے نہیں جاسکے تھے اور پھر آج تو بخار نے اسے بستر کا ہی کر دیا تھا۔ جو پیسے تھے وہ دو دن سے روز کے خرچ میں استعمال ھوگۓ تھے اور باقی کے بارش کی بوچھاڑ کی نظر ھوگۓ۔ پھر ایک دم اس کے ذہن میں کوٸ خیال آیا اس نے بٹوا وہیں چھوڑا اور کچن کا رخ کیا۔ کچن سے اس نے بسکٹ کے وہ پیکٹز اٹھا لۓ جو وہ پچھلے دنوں نہیں بیچ سکا تھا۔ وہ بسکٹ کے پیکٹ ھاتھ میں لۓ باھر نکال رھا تھا کے اس کی نظر سامنے دیوار پر لگے آٸینے پر پڑی۔ اس نے آٸینے میں دیکھا اس کے بال بکھرے ھوۓ تھے، کپڑے میلے اور مسلے ھوۓ،اور اس کا چہرہ تھکا ھوا اور بلکل سادہ تھا۔ یہ اس کے اصلی چہرہ پر بسکٹ خریدنا تو دور کی بات کوٸ اس کی شکل دیکھنا اور اس کی بات سننا بھی پسند نہیں کرے گا بس یہی سوچ کر اس نے اپنے قدم پلٹے اور اپنے کمرے کارخ کیا۔
الماری سے اس نے اوپر پڑا ھوا ایک گہرے آتیشی رنگ کا جوڑا جس پر سنہری گوٹے کی بیل لگی تھی وہ نکال لیا۔ جلدی سے جوڑازیب تن کیا۔ بال سنوارے اور پھر چہرے پر پاٶڈر ،گہری سرخی اور آنکھوں میں کاجل ڈال کر اب وہ تیار تھا۔ اسنے ایک نظر پوری طرح خود کو دیکھا۔ اب وہ واقعی ریشم لگ رھا تھا۔ وہ جانتا تھا کے اس کی یہ شکل اس کی اصلی شکل کے مقابل قابلِ قبول ہے۔ اب وہ باھر جانے کے لۓ چل دیا۔
بارش اب تھم چکی تھی۔ چند قدم چلنے کے بعد اب وہ ایک روڈ پر تھا۔ سگنل رُکا ہوا تھا۔ وہ ایک سفید گاڑی کی ڈرایونگ سیٹ والی کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا گاڑی میں آگے والی سیٹ پر ایک خوش شکل عورت اور پیچھے ساتھ آٹھ سال کی گھنگرالی بالوں والی ایک بچی بیٹھی تھی۔ اس نے اپنے خاص انداز میں تالی بجاٸ پھر کہنا شروع کیا۔ ریشم کے پیارے بھیا یہ بسکٹ لے لو بےبی کے لۓ۔ پیچھے بیٹھی بچی نے کہا ڈےڈی مجھے بسکٹ کھانے ھیں۔ بچی کی بات سن کر اس کی ماں نے اسے گھورا اور کہا نو بیٹا یے بسکٹ اچھے نہیں ہم آپکو کہی اور سے لے دینگے۔ ریشم نے اب پھر کہنا شروع کیا لے لو نا بسکٹ بےبی کے لیۓ ریشم کو دوا کے لۓ پیسے چاہیے سوہنا رب آپ کو چاند سا بیٹا دے اور اس ننھے پھول کے نصیب اچھے کرے۔ ڈرایونگ سیٹ پر بیٹھا شخص اب اُکتا گیا تھا اس نے انتہاٸ ناگواری سے ریشم کو دیکھا اور اس پر دھاڑا ارے بند کرو اپنی یہ بکواس تمہے کیا لگتا ہے کے اپنی اکلوتی بیٹی کو میں تمھارے ان منحوس ھاتھوں کے دو نمبر بسکٹ کھلاوں گا اپنا یہ منحوس وجود لے کر دفاھوجاٶ۔ وہ نجانے اسے اور بہت سی کیا کیا باتیں سنا کر سگنل کھلنے پر کب کی گاڑی آگے بڑھا چکا تھا لیکن ریشم وہیں سکتے میں کھڑا تھا ارد گرد کا اسے ہوش ہی نہیں تھا اس شخص کی باتیں اس کا کلیجہ چھلنی کر گٸ تھی۔
اچانک ایک اور آواز اس کے کانوں سے ٹکراٸ۔ یہ کسی باٸک پر سوار نوجوان لڑکے کی آواز تھی۔ او جی راستا چھوڑو یہ کیا بیچ روڈ پر ڈرامے بازی لگا رکھی ہے۔ سب جانتا ھوں تم لوگوں کے یہ ڈرامے یہ آنسو اور مسکین چہرا بنا کر تم لوگوں کی ھمدردیاں سمیٹنا چاھتے ہو۔ ہٹو میرے راستے سے۔ وہ خاموش کھڑا اس نوجوان کی باتیں سنتا رہا۔ اب نوجوان باٸک سے اترا اور اس نے ریشم کو زور سے دھکا دے کر ایک طرف کیا اور تیزی سے باٸک آگے بڑھا دی۔ اتنے ضبط کے بعد بھی اس کی آنکھیں آنسوٶں سے بھری تھیں یہ اندازہ اُسے تب ھوا جب کچھ آنسو اس کی آنکھوں سے چھلک کر اس کے ھاتھ پر بوندوں کی مانند ٹپکے۔ اُن دونوں کی باتیں اس کے دل کو چھری کی طرح کاٹ رھی تھیں۔ وہ اتنا دل برداشتا ھوگیا تھا کے اب اس کی ھمت نہیں تھی کے کسی اور کو بسکٹ بیچتا اور مزید اپنی زات کی تزلیل کرواتا۔ وہ سڑک کے کنارے جا بیٹھا ۔ لیکن یہ تمام باتیں تو اس کی ذات کا حصہ بن چکی تھیں ھوش سنمبھالنے سے اب تک اس نے ایک ایسے ہی ظالم معاشرے کا سامنا کیا تھا شروع شروع میں اسے یہ باتیں بے حد چبھتی تھیں لیکن اس کی ساتھ نیلو باجی کا حوصلہ تھا اور پھر وہ روز روز کی ایسی باتیں سن کر اب عادی ھوگیا تھا ایسی ذلت تو اس کے معمول کا حصہ تھی۔ تو پھر آج کیوں اس کی آنکھیں نم ھوگٸ؟ کیوں آج وہ ان باتوں سے گھایل ھوکر ھمت ھار بیٹھا تھا؟ کیوں اسے آج اپنی بد قسمتی کا شدت سے احساس ھورہا تھا؟ اس لۓ کیوں کے آج وہ پہلی بار زندگی میں خود کو بہت بے بس محسوس کر رھا تھا کیونکہ اس کی نیلو باجی شدید بیمار تھی اور دوا کے لۓ اس کے پاس پیسے نہیں تھے اور اسے معلوم تھا کے دوا خانہ والا بھی اسے بےعزت تو کردے گا پر ادھار نہیں کرے گا۔ نیلو اس کے لۓ اس کی زندگی کی مانند اہمیت رکھتی تھی آج تک اسنے جتنے دن جیۓ سب نیلو کو دیکھ کر اور اُس کے دیۓ حوصلے سے تو جیے تھے ورنہ دنیا اور اس کی باتوں نے تو جیتے جی اسے مار دینا تھا۔ اسنے ھوش سنمبھل نے سے نیلو کو ایک ماں کی طرح اسکو پروان چڑھاتے اور اسکے لاڈ اٹھاتے دیکھا تھا۔ نیلو کی سوا اس کا کوٸ نا تھا۔ نیلو کیے لۓ وہ اور اس کے لۓ نیلو زندگی کا سہارہ تھے تو کیا وہ اپنے زندگی کے سہارے کو یوں بخار میں جلتا چھوڑ دے۔ وہ آخر کیا کرے کہاں جاۓ۔ اگر چند بسکٹ کے پیکٹ بک جاتے تووہ نیلو کی دواٸ لے پاتا۔ بسکٹ نہیں خریدنے تھے تو انکار کر دیتا لیکن اس کی ذات کی تذلیل کر کے اس کے حوصلے کو ماند کیوں کردیا۔ اس کی نظرے آسمان کی جانب اٹھیں اس نے تمام مخلوقات کے رب کو پکارا اے میرےرب تو نے جیسا چاہا مجھے بنایا میں اپنی اس بناوٹ کا زمےدار نہیں نااس میں میرا کوٸ قصور ہے۔ اے میرے رب کیامیں اتنا زیادہ حقیر ھوں کے لوگ مجھ سے چڑ کھاتے ھیں میرا وجود کسی کو پسند نہیں۔ اے رب میں تجھ سے دعا کرتا ھوں کے دشمن کو بھی ہمارے جیسے ناں بنانا کیوں کے ھم تو لوگوں کی باتوں اور تلخ رویوں سے ہی جیتے جی مر جاتے ھیں۔ یا میرے مالک میری مدد کردے۔
لیکن اس دنیا میں نیک لوگ بھی موجود ھیں۔ اسے قدموں کی آھٹ ھوٸ اسنے دیکھا تو ایک اُدھیڑ عمر شخص اس کے قریب کھڑا تھا۔ اسکے چہرے پر آنسو روا تھے اسنےفوراً ڈوپٹے سے اپنے آنسو پونچھے۔ وہ شخص اس سے مخاطب ھوا کیوں رو رہے ھو؟ شاید اس کی گزشتہ زندگی سے اب تک پہلی دفعہ کسی نے اس تہذیب سے اس سے گفتگو کی تھی۔اس نے جواب میں انکار میں سرہلا دیا۔ اس شخص نے مسکرا کر کہا چھپاٶ نہیں جانتا ھوں تم رو رہے تھے وہ انسان ہی کیاجو کسی دوسرے انسان کا درد نا سمجھے۔ کیا بات ہے؟ ریشم کو اب حوصلا ھوا اسنے کہا میری نیلو بیمار ہے دوا کے پیسے نہیں تم میرے یے بسکٹ خرید لو تاکے ان پیسوں سے دوا لے سکوں۔ اس کی بات سن کر اس شخص نے جیب سے بٹوا نکالا اور کچھ رقم نکال کر ریشم کے ھاتھ پر رکھی۔ ریشم نے رقم دیکھی اور کہا ارے یہ اپنے زیادہ دے دیے میرے ان تمام بسکٹ کی یے رقم نہیں بنتی۔ آدمی نے کہا مجھے تمھارے بسکٹ نہیں لینے انہیں تم کسی اور کو بیچ دینا رقم رکھ لو۔ یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا۔ ریشم کی آنکھوں میں آنسو بھر آۓ وہ اسے شکر گزار نظروں سے کچھ دیر دیکھتا رھا۔ پھر اس کی نظریں آسمان کی جانب اٹھیں اس نے کہا یا رب تیرا شکر ہے کے اس دنیا میں تیرے کچھ نیک بندے بھی ہیں جو ھم خواجہ سرا سے بھی رحم اور تہذیب سے پیش آتے ھیں۔