"غربت کا حصہ ” آخری حصہ..
کیا چیز ہوتی ہے محبت جب ہو جاتی ہے تو انسان کی سانسیں اس شخص سے جڑ جاتی ہیں محبوب کی خوشی سے اپنے دل کی خوشی جڑ جاتی ہے محبوب کی اداسی اداس کر جاتی ہے اور اس محبت کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ یہ خوش فہمیوں کے باغات کی سیر کراتی رہتی ہے ایسے ایسے سپنے دکھانے لگ جاتی ہے جن کی پوری ہونے کی دور دور تک کوئی امید بھی نہیں ہوتی غرض یہ کہ محبت موت بھی ہے اور زندگی بھی یہ تو سارے نصیب کے کھیل ہیں کسے موت ملتی ہے کسے زندگی
دانیال کے ساتھ بھی یہی ہوا اسکا سب سے پہلا سپنا یہ تھا کہ وہ ایک نورمل انسان کی طرح ہو جائے جو شاید نا ممکنات میں سے تھا لیکن محبت کو پورا پانے کی لگن میں وہ پوری کوشش میں لگ گیا تھا کہ کسی طرح سے چلنا پھرنا شروع کرے اور اسے یہ یقین ہو گیا تھا کہ شزا بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتی ہے جتنا وہ کرتا ہے شزا اس کے بنا نہیں رہ سکتی جیسے وہ نہیں رہ سکتا کوئی اسے یہ کہہ دے کہ یہ تمہیں دھوکہ دے رہی ہے اسکا یقین مت کرو چاہے اسکا باپ ہی کیوں نہ ہو اسے یقین نہیں آنا تھا کیونکہ اس نے دل سے اسے چاہا تھا اس پر بھروسہ کیا تھا جب ایک بار انسان کسی پر بھروسہ کر لیتا ہے تو اس بھروسے کا ٹوٹنابہت مشکل ہوتا ہے
شزا کی لالچ دوسرے محسوس کر گئے لیکن دانیال کو وہ اسکی محبت لگی چاہے کچھ مانگنے کے ہی بہانے لیکن بات تو کرتی تھی اسے نخرے دکھاتی تھی اسے روکتی تھی ٹوکتی تھی
اسی لمحے جب تنویر کمال نے اسے اصلیت بتانی چاہی انہوں نے شزا کو اسی لیے گھر بھیج دیا تاکہ وہ آرام سے دانیال کو سمجھا سکیں شزا کو زیادہ سر نہ چڑھائے ہر بات پوری نہ کرے لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھاتے دانیال کی حالت بگڑ گئی
دانیال کو ہسپتال میں داخل کر لیا گیا تھا تنویر کمال ایک ایسے بھنور میں پھنس چکے تھے جہاں سے نکلنے کے کوئی اثرات نظر نہیں آرہے تھے شزا کو وہ سمجھا نہیں سکتے تھے اس پر اب بھروسہ قائم ہونا مشکل تھا شزا کو دانیال سے دور کرنا مشکل بن گیا تھا دور کر بھی دیتے تو وہ جو بے فکری دانیال کی طرف سے ہونے لگی تھی وہ دوبارہ دانیال کی فکر میں لگ جاتے
ہسپتال میں بیٹھے بیٹھے انہوں نے اپنا سر پکڑ لیا کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اب کیا ہوگا
یا اللہ رحم فرمائیے مجھ پر یا اللہ مجھے کوئی راستہ دکھائیے میں کیا کروں کسطرح اپنے بیٹے کو سنبھالوں کسطرح شزا کو سمجھاؤں ماں پہلے چھوڑ کر جا چکی ہے کبھی اس بچے نے ماں کا پیار نہیں پایا اب اسکی بیوی لایا ہوں تو وہ بھی بے وفائی کر رہی ہے کہاں سے لاؤں ایسا مخلص ساتھی جو میرے بچے کو سنبھال سکے یا پھر ایسے ہی چلتا رہے جیسے چل رہا ہے.. تنویر کمال دل ہی دل میں دعا بھی کر رہے تھے اور ساتھ میں پچھتا بھی رہے تھے انہوں نے خود اپنے بیٹے کی زندگی کو اور مشکل بنا دیا تھا
ادھر شزا نے گھر پہنچ کر جنید کو فون کیا اور اسے ساری کہانی بتا دی اور کہہ دیا اب وہ اس گھر میں نہیں جائے گی دانیال سے طلاق لے کر اس سے شادی کرے گی
تم پاگل ہو گئی ہو ایسے کیسے اتنی بڑی دولت کو چھوڑ رہی ہو جاؤ جا کر معافی مانگو اور ابھی اس کے ساتھ رہو
نہیں اب میں نہیں جاؤنگی اب بس بہت ہو گئی تنویر کمال نے مجھے بہت بے عزت کر کے نکالا ہے
میں تم سے شادی نہیں کر سکتا سمجھو میری سچویشن میں تو خود ابھی بے روزگار ہوں تمہیں کہاں رکھونگا گھر والوں کو کیا بتاونگا..؟
تم بھول گئے کہ کیسے میں نے دانیال سے بڑی بڑی رقم مانگ کر تمہیں دی ہیں اسی وجہ سے انہیں اور شک ہو گیا ورنہ میں تو خاموشی سے سب سمیٹ رہی تھی مگر مجھے پہلے یہ فکر تھی کہ تم سیٹ ہو جاؤ کسی طرح سے اسقابل کہ مجھے سہارا دے سکو آج تم یہ کہہ رہے ہو کہ تم اپنے گھر والوں سے کیا کہوگے
جنید میں واپس نہیں جا سکتی پلیز کچھ کرو ہم سکون کی زندگی گزاریں
میں کچھ نہیں کر سکتا اس وقت تم واپس اپنے گھر جاؤ اور تنویر کمال سے معافی مانگو ابھی فوری اتنا بڑا فیصلہ نہیں لیا جا سکتا جنید نے صاف روکھے پن سے اسے جواب دے دیا اور فون رکھ دیا
شزا کو اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو رہا تھا اس نے جنید کو سچے دل سے چاہا تھا اور جنید اسے دھتکار رہا تھا جیسے وہ دانیال کو دھتکار رہی تھی اسے استعمال کر رہی تھی اپنے مقصد کے لئے اب جب خود پر بیتی تو برداشت کرنا مشکل ہو رہا تھا
کہتے ہیں بے بسی بھی غربت کا حصہ ہوتی ہے لیکن یہ بات غلط ہے بے بسی غربت کا نہیں نصیب کا حصہ ہوتی ہے کس کے نصیب میں کیا لکھا ہے کچھ نہیں پتہ کس نے کس وقت کیا سہنا ہے کچھ نہیں پتہ یہ جو ہمارے اندر نیک اور بد کا انسان بیٹھا ہے یہ بھی نصیب سے ہی ملتا ہے یہ جو ہمارے اندر احساس پیدا ہوتا ہے یہ بھی نصیب کے کھیل ہیں یہ جو عقل دی ہے اللہ نے سب نصیب کی دولت ہے اسی لیے رب سے اچھا نصیب مانگنا چاہیے
شزا کافی دنوں تک جنید کو فون ملاتی رہی لیکن پہلے تو اس نے فون نہیں اٹھایا اور اس کے بعد اپنا نمبر بدل لیا وہ بری طرح ہار گئی تھی تنہا ہو چکی تھی واپس چلی بھی جائے تو کیا دوبارہ تنویر کمال اسے برداشت کریں گے یا نہیں کچھ پتہ نہیں..
کیسے نہیں برداشت کریں گے آخر انکا بیٹا میرا دیوانہ ہے چاہے کچھ بھی ہو دانیال کی خاطر انہیں مجھے دوبارہ اپنے گھر میں رکھنا پڑے گا اور پھر اب وہ اور انکا بیٹا دونوں میرے محتاج ہیں وہ دل ہی دل میں اپنے آپ سے باتیں کر رہی تھی کافی سوچ بچار کے بعد آخر اس نے فیصلہ کیا ابھی کچھ دن اور بھیگی بلی بن کر رہا جائے تنویر کمال سے معافی مانگ لوں اور دوبارہ گھر میں رہنا شروع کر دوں ایسا نہ ہو جو ہے وہ بھی چھن جائے جنید کا اصلی روپ تو وہ دیکھ چکی تھی
یہ سوچتے ہی وہ آٹو پکڑ کر گھر آگئی گھر پر نہ تو دانیال تھا نہ تنیویر کمال نوکروں نے بتایا کہ دانیال کی حالت بہت بگڑ گئی تھی اسے ہسپتال میں داخل کر لیا گیا ہے اور وہ کئی دنوں سے بیہوشی کی حالت میں پڑا ہوا ہے وہ سیدھی ہسپتال پہنچ گئی اس نے تنویر کمال کو ڈھونڈا وہ ایک بینچ پر سر جھکائے بیٹھے ہوئے تھے وہ برابر میں جا کر بیٹھ گئی
مجھے معاف کر دیں انکل میں نے آپ کا اور دانیال کا دل دکھایا ہے مگر مجھے سمجھ آگئی ہے اب آپ جیسا کہیں گے میں ویسا ہی کرونگی میں دانیال کو ٹھیک کرونگی آپ دیکھئے گا وہ مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کہ وہ خود کوشش کرے گا اور جلد از جلد ٹھیک ہو جائے گا پلیز آپ مجھے معاف کر دیں اپنے بیٹے کی خاطر معاف کر دیں
تنیویر کمال نے سر اٹھا کر شزا کو دیکھا اور کہا ہاں میں تمہیــــں معاف کرتا ہوں اپنے بیٹے کی خاطر کیوں کہ تمہیں میں سزا نہیں دے سکتا تمہیں سزا رب دے گا اور جو وہ سزا دے گا وہ تمہیں تمہاری اوقات بتا دے گی میں نے تمہارا ہر گناہ معاف کیا کیونکہ میرا بیٹا تمہیں بہت چاہتا تھا اور میں نہیں چاہتا کہ وہ مرنے کے بعد بھی بے چین رہے… جاؤ اب یہاں تمہارے لیے کچھ نہیں رکھا دانیال بھی نہیں…… کیونکہ اللہ نے اسکی تکلیف ختم کر دی ہے اور اپنے پاس سکون کی دولت دینے کے لئے بلا لیا ہے اب تم ڈھونڈ لو سکون جہاں سے مل جائے بھٹکتی رہو سسکتی رہو جاؤ جاؤ یہاں سے اب کچھ نہیں رکھا تمہارے لیے کچھ نہیں… اور میں دعا کرتا ہوں خدا تمہاری عمر دراز کرے تاکہ تم اچھی طرح اس دنیا میں جینے کے مزے لے سکو شاید تمہیں میرا اور دانیال کا دکھ کبھی سمجھ آسکے.. یہ کہہ کر تنویر کمال دانیال کے روم کی طرف بڑھ گئے جہاں دانیال کا مرا ہوا جسم انکا انتظار کر رہا تھا.. The End 😊 شاکرہ مفتی عمران