غربت کا حصہ.. شاکرہ مفتی عمران تیسری قسط
شزا کو سب عجیب لگ رہا تھا اس بڑے سے کمرے سے وحشت سی ہونے لگی اس نے باہر کی طرف دوڑ لگا دی جلدی سے نوکر کو بلا کر لائی
دیکھئے جلدی آئیں وہ کہا کہہ رہے ہیں.. شزا نے کپکپاتی آواز میں نوکر سے کہابی بی جی یہ روز کا معمول ہے آپ بس انہیں سہارا دے کر وہیل چئیر پر بٹھا دیا کریں اور واش روم لے جایا کریں ہم آپ کو سکھا دیں گے پھر آپ خود کر لیا کریں نوکر نے بھی صاف گوئی اختیار کیشزا خاموشی سے سب دیکھنے میں لگی ہوئی تھی جو بھی تھا یہ زندگی اس نے خود اپنی مرضی سے چنی تھی واپسی کا کوئی راستہ اس کے پاس نہیں تھا اور نہ ہی اس نے واپس جانے کا سوچا تھا ابھی تو اسے اپنے شوہر کی دیکھ بھال کو سمجھنا تھا سمجھداری کے ساتھ…بعض اوقات نا چاہتے ہوئے بھی آپ کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے کچھ ایسے راستے جن کا اندازہ نہیں ہوتا یہ ہمارے لیے آسان راہ ہے یا مشکل بس ہم چن لیتے ہیں لیکن جب تک ان پر چلنا شروع نہ کیا جائے ان راستوں میں کیا کیا مشکلات کا سامنا ہوگا کیا کیا سہنا ہوگا اندازہ نہیں کر سکتےپھر جب مشکلات آتی ہیں تو اگر انسان اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو یہ رب کا کرم ہوتا ہے کہ اس نے اپنے قریب آنے کی توفیق عطا فرمائییہی شزا کے ساتھ ہوا وہ اپنی غربت بھری زندگی کی نا شکری میں اتنا کھو چکی تھی کہ اپنے اس چھوٹے سے گھر میں کتنا سکون میسر ہے اندازہ ہی نہیں کر پائی کیونکہ جب ہم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں پر نظر رکھنے کے بجائے دوسروں کی نعمتوں کو دیکھتے ہیں یا ان پر نظر رکھتے ہیں تو اپنی زندگی بے سکون لگنے لگتی ہے شزا کی ہمیشہ سے دوسروں پر نظر رہی وہ کتنا اچھا کھا رہا ہے اس کے پاس گاڑی ہے اس کے پاس اتنا بڑا گھر ہے اسی لیے اس کے پاس جو سکون کی دولت تھی وہ چھوٹی ہوتی چلی گئی اور اسی لالچ میں اس نے ایک ایسا راستہ چن لیا جس پر چلنا بظاہر آسان دکھ رہا تھا لیکن جب چلنا شروع کیا تو پتہ لگا اس کی زندگی انتہائی مشکل ہو چکی ہے اسے دن رات اپنے معذور شوہر کو دیکھنا ہے اسی کی خدمت کرنی ہے وہ جہاں جاتی لوگ اسے ترس بھری نگاہ سے دیکھتے تنویر کمال وقتاً فوقتاً اسے سمجھاتے رہتے تھے دلاسا دیتے رہتے لیکن وہ انہیں بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی نہ انکا درد سمجھ پا رہی تھی وقت گزر رہا تھا وہ زندگی کو گھسیٹ گھسیٹ کر گزار رہی تھی اسکی زندگی معذور ہو چکی تھی اب اسے گھر کی شدت سے یاد آنے لگ گئی تھی..ایک ناشکری ہوتی ہے کچھ نہ پا کر اور ایک ناشکری ہوتی ہے سب کچھ پا کر وہ پہلے بھی ناشکری تھی اور اب بھی ناشکرا پن کر رہی تھی اور اس خود پسندی کے عالم میں وہ یہ بھول چکی تھی جو ایک جان اس کے ساتھ جوڑ دی گئی ہے وہ جسم سے معذور ضرور ہے لیکن
اسکی قربت کو پا کر وہ اسکے قریب آرہا تھا اور دھیرے دھیرے اس کے اندر محبت کی وہ طاقت سما رہی تھی جو انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہےجی ہاں محبت ایسی طاقت ہے جو اگر کسی کو مل جائے تو اس کے اندر ایک جوش پیدا ہو جاتا ہے بیمار سے بیمار انسان کی بھی بیماری صحیح ہونے لگتی ہے جب محبت کا لمس اسے ملنے لگتا ہے شزا کے شوہر دانیال کو وہ لمس مل رہا تھا اب چاہے شزا سب کام اوپر سے کر رہی تھی صرف کام سمجھ کر لیکن اسکا ہر وقت کا ساتھ دانیال کو اسکا عادی بنا رہا تھایہ قدرت کا قانون ہے کہ مخالف جنس کی موجودگی لازمی اپنا اثر دکھاتی ہے دانیال نے بولنے کی کوشش شروع کر دی تھی وہ شزا کا نام لینا چاہتا تھا مگر صحیح سے بول نہیں پاتا تھاآپ نام تو صحیح لیا کریں دیکھیں اب اگر آپ نے میرا نام صحیح سے نہیں لیا تو میں آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤنگی شزا کو جب غصہ آتا وہ اکثر دانیال کو چھوڑ کر جانے کی دھمکی دے دیتی اور دانیال اس بات سے سہم کر رہ جاتا اور اکیلے میں دھیرے دھیرے نام لینے کی پریکٹس کرنے لگتا تاکہ شزا کو خوش کر سکے لیکن شزا نے کسی حال میں خوش نہیں ہونا تھااس نے دانیال کی کمزوری کو بھانپ لیا تھا اور اسے اب اپنے کاموں کے لئے استعمال کرنے لگی تھی وہ جو کہتی دانیال سنتا اور اسے پوری کرواتا تنویر کمال بھی اگر کسی بات کو لے کر سمجھانے لگتے تو وہ چیخنے لگتا رونے لگ جاتا آخر تنویر کمال کو بھی اپنے بیٹے کے آگے جھکنا پڑتااس نے اپنے بھائی بہنوں کو اچھے اسکول میں ڈلوا دیا انکی فیس انکے کپڑے انکا گھر سب دانیال کو مہرہ بنا کر اچھا کروا دیا اب اس کا لالچ بڑھ رہا تھا اور اس بات سے تنویر کمال پریشان رہنے لگ گئے تھے…وہ آئے دن پیسوں کی ڈیمانڈ کرتی اور پھر ڈھیروں شاپنگ کر کے اپنا دل بہلاتی رہتی شوہر سے اسے رتی بھر ہمدردی نہیں تھی وہ صرف اس رشتے کو اس لیے بھگت رہی تھی کہ اگر دانیال کو چھوڑتی ہے تو دولت ہاتھ سے جائے گی مگر اس کے بڑھتے جذبات اسے یہ سکھاتے رہتے تھے کہ دانیال کو مہرہ بنا کر اپنے لیے راستے بنا لئے جائیں جب راستے ہموار ہو جائیں تب دانیال کو چھوڑا جا سکتا ہے اسی لیے اس نے اپنے نام پر گھر کی ڈیمانڈ کر دی گاڑی وہ پہلے ہی خرید چکی تھی اب گھر کی فرمائش سن کر تنویر کمال نے اسے گھر جانے کی دھمکی دے دی تھیاگر تمھاری فرمائشیں ختم نہیں ہوئیں تو میں تمہیں تمہارے گھر بھجوا دونگا.. آخر انہوں نے اکیلے میں شزا کو دھمکی دے دیتو آپ کیا سمجھتے ہیں میں یہاں بیٹھی مفت میں آپ کے بیٹے کی خدمت گزاری کرتی رہوں گی .. اگر کوئی فرمائش کر رہی ہوں تو اس کے بدلے میں آپ کا معذور بیٹا بھی سنبھالتی ہوں میرا احسان مانیں جو آپ کے بیٹے کو سنبھال لیا اور اب تو آپ کا بیٹا کتنا صحت مند بھی ہو رہا ہےدیکھو میں تمہارا احسان مانتا ہوں یہ سب تمہارا اپنا ہی ہے دانیال تمہارا شوہر ہے میں نے اسکی شادی تم سے اس لیے کی تھی کہ تم مخلص ہو کر اسکا ساتھ دوگی اسکی خدمت کروگی لیکن مجھے بہت افسوس ہوا تم اپنی خدمت کو پیسے سے تول رہی ہومیں نے دانیال کی آنکھوں میں تمہارے لیے محبت دیکھی ہے کیا تمہیں اتنے عرصے ساتھ رہ کر دانیال سے زرا برابر بھی محبت نہیں ہوئی؟ انسان اگر ایک جانور بھی پالتا ہے تو اس سے بھی اسے محبت ہو جاتی ہے ہمدردی ہوتی ہے وہ اس جانور کو بھی تکلیف دینے کا نہیں سوچتا اور ایک تم ہو تمہیں پیسے کے علاوہ کچھ نظر ہی نہیں آتا..دیکھو وہ تم سے پیار کر کے تمہارا نام لے رہا ہے دیکھو وہ بہتر ہو رہا ہے اللہ نے چاہا تو وہ چلنے بھی لگے گا تم صبر تو کرو اسکا اتنا خیال کیا تو اس کا دل سے خیال تو کرو تنویر کمال بھی سمجھا سمجھا کر حوصلہ ہار رہے تھے ایک طرف اب انکا بیٹا تھا جو شزا کی وجہ سے ٹھیک ہو رہا تھا اور ایک طرف شزا کی بڑھتی خواہشات انہیں انجانے سے خوف میں مبتلا کر رہیں تھیں انہیں سمجھ نہیں آرہا تھا اس پل وہ کیا کریں شزا کو دھمکی تو دے دی تھی لیکن انہیں اندازہ تھا کہ اب انکا بیٹا شزا کے بغیر نہیں رہ پائے گا… جاری ہے شاکرہ مفتی عمران..