تو اب آپ بھی یہ جان لیں کہ میری وجہ سے آج آپ کا بیٹا ٹھیک ہو رہا ہے میری وجہ سے اس میں ہمت آرہی ہے اور پھر آپ کا کیا بھروسہ کہ آپ کا بیٹا چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے تو آپ مجھے گھر سے ہی نکال دیں.. مجھے اپنی سیفٹی چاہیے مجھے اطمنان ہو کہ اگر کل کو آپ نے مجھے دھوکہ دیا تو میں دوبارہ اس غربت میں نہ جا سکوں…
کیونکہ ایک بار جس چیز کی عادت ہو جائے دوبارہ پھر پرانی چیزیں نہیں اپنائی جا سکتیں…. اور میں اب اس غربت بھری زندگی میں واپس نہیں لوٹنا چاہتی…آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہو میں نے آپ کو اس گھر کی بہو بنایا اس لیے کہ اس گھر میں سکھ چین ہو مگر خیر آپ جیسے لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے جن کے دل محبت سے خالی ہوتے ہیں..جب انسان کی آنکھوں پر دولت کی پٹی بن جائے تو وہ ہر چیز کو اسی میں تولتا ہے… تنویر کمال کی کوئی بھی بات شزا کی سوچ کو نہ بدل سکی دانیال کی محبت اس کے دل میں نہ اتر سکی..شزا… رات کو جب شزا سونے لیٹی تو دانیال نے اسکا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور پہلی بار دانیال نے شزا کا نام صحیح پکاراارے واہ آج تو آپ نے نام بھی صحیح سے لے لیا اب آپ نے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش بھی جاری رکھنی ہے جو آپ جلد از جلد چلنا شروع کر دیںکہیں نہ کہیں ایک ایسا جذبہ جو یا تو ہمدردی کا تھا یا محبت کا شزا کے اندر موجود تھا شزا کے اندر جو اپنی لالچ اور ہوس میں محسوس نہیں ہو پا رہا تھاآپ کی فزیوتھراپی روز ہوتی ہے اور کب سے ہو رہی ہے لیکن آپ خود سے کوشش نہیں کرتے اس لیے چل نہیں پاتے اب آپ کو میں چلتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں بولیں کوشش کریں گے نا… شزا نے اس سے اپنا ہاتھ نہیں چھڑایا تھا دانیال نے جواب میں اسکا ہاتھ ہلکے سے دبا دیا جسکا ہاں اشارہ تھا…چلیں اب سو جائیں.. شزا سے زیادہ بات نہیں ہو پاتی اور شزا سو جاتی جبکہ دانیال چاہتا کہ وہ اس سے بات کرتی رہے اسے سمجھاتی رہے وہ اس کے بالوں کو چھوئے اس کے ہاتھوں کو تھام کر رکھے اور وہ اسے دیکھتا رہے وہ بولتی ہوئی اچھی لگتی تھی دانیال کو اسکی ناراضگی بھی بھاتی تھی اسی لئے سب سنتا تھایہ محبت بھی عجیب شے ہے محبوب کتنی برائیوں کے باوجود سب سے اچھا لگتا ہے حتیٰ کہ اسکا نصیحت کرنا بھی بُرا نہیں لگتا وہی نصیحت کوئی اور کرنے لگ جائے تو وہ دل پر اثر ہی نہیں کرتی اور اگر محبوب کرے تو عمل کرنے کو بھی دل چاہتا ہےیہی حال دانیال کا ہوا اس کے اندر ایک ہمت سی آگئی تھی جو اسے آہستہ آہستہ اسقابل بنا رہی تھی کہ وہ شزا سے بات کر سکے مگر شزا کا دماغ کسی اور سازش میں مصروف رہنے لگ گیا تھا اس لیے اسے دانیال کی محبت نظر نہیں آرہی تھی..اور پھر شزا کی زندگی میں جنید آگیا جنید ایک امیر گھرانے کا بگڑا ہوا لڑکا تھا جسے اس کے والدین بھی اکثر گھر سے نکال دیا کرتے تھے مگر جب وہ شزا کو ملا اور شزا نے اپنے دکھ بھری کہانی اسے سنائی کسطرح وہ ایک معذور شخص کے حوالے کر دی گئی کسطرح وہ اسکا خیال رکھتی ہے اور تنویر کمال کی دھمکیاں کہ اسے گھر سے نکال دیں گے تو اس نے شزا سے شادی کا وعدہ کر لیا وہ خود بھی ایک لالچی انسان تھا اس کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح شزا دولت گھسیٹ گھسیٹ کر اسے بھرتی رہے گی اور وہ اپنی عیاشیاں پوری کر سکےدراصل جھوٹ جھوٹے کو دعوت دیتا ہے شزا نے جس جھوٹ سے کام لیا اسی جھوٹ سے وہ بھی جنید کے ہاتھوں مہرہ بن چکی تھی اب اسے یہ آسرا تھا کہ وہ دولت اکھٹی کر کے جنید کے ساتھ شادی کر کے سکون سے زندگی گزارے گی.. جنید نے اسے سنہرے سپنے دکھا دیئے تھے اس نے اپنے بارے میں بڑھا چڑھا کر بتایا کہ وہ ایک امیر گھر کا لڑکا ہے جسکو پیسے کی کوئی کمی نہیں لیکن وہ اپنا کمانا چاہتا ہے محنت کرنا چاہتا ہے تاکہ کسی کا محتاج نہ ہومگر جنید کی کچھ اور پلاننگ تھی جنید اسے شادی کے آسرے میں رکھ کر اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا گھر والے تو ویسے بھی اس سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے نہ اسے اب پیسے ملتے تھے اس وقت شزا اس کے لیے سب سے بڑا ہتھیار تھی جسے وہ استعمال کر کے اپنی جائز ناجائز خواہشات پوری کرنے میں لگا ہوا تھا..تمہاری پیسوں کی ڈیمانڈ بڑھتی جا رہی ہے کیا کرتی ہو اتنے پیسوں کا؟ شزا بھی جنید کی آئے دن کی ڈیمانڈ کی وجہ سے دانیال سے مختلف بہانے کر کے پیسے مانگنے میں لگی رہتی جس کی وجہ سے تنویر کمال اب بہت سیریس ہو گئے تھے اس معاملے میں اب زیادہ دیر نہیں کر سکتے تھے اسی لیے انہوں نے شزا سے دو ٹوک بات کرنے کی سوچیتو اس دولت پر میرا بھی حق ہے.. شزا نے بھی تڑک کر جواب دے دیاحق ہے مگر اس حق کا تم ناجائز فائدہ اٹھا رہی ہو آئے دن کبھی پچاس ہزار کبھی ایک لاکھ کبھی پچیس ہزار تمہیں چاہیے ہوتے ہیں جبکہ گھر میں سب موجود ہے آخر کیا کرتی ہو تم. ان پیسوں کا..؟آپ کون ہوتے ہیں مجھ سے حساب مانگنے والے جب دانیال مجھ سے نہیں پوچھتا.. شزا میں اب خود اعتمادی آچکی تھی پیسوں میں کھیلتے ہوئے وہ اپنی اوقات بھول چکی تھی تکبر ماتھے پر رکھ لیا تھا وہ بھول گئی تھی جو خدا زمین سے اٹھا کر انسان کو آسمان تک پہنچا سکتا ہے وہی خدا واپس آسمان سے زمین پر بھی پٹخ سکتا ہےوہ بھول چکی تھی کہ اللہ مظلوم کی آہ کو فوری سنتا ہے وہ بھول چکی تھی کہ اوپر بیٹھا خدا سب کی نیتوں کو دیکھ رہا ہے چاہے لوگوں کے آگے کتنا اچھا بن کر دکھا دیں دل میں اگر کھوٹ ہے تو رب ہر بات جانتا ہے وہ بھول چکی تھی کہ اللہ اگر انسان کی رسی کو ڈھیلی چھوڑتا ہے تو اللہ پاک اس رسی کو جب کھینچنے پر آتا ہے تو اچھے اچھوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں..میں دانیال کا باپ ہوں اسکا اور تمہارا سرپرست اور یہ میری زمہ داری ہے کہ میں دانیال کے ہر معاملے میں اسکا خیال رکھوں میں چاہوں تو تمہیں ابھی گھر سے نکال دوں لیکن صرف دانیال کی وجہ سے چپ رہتا ہوں لیکن اب نہیں رہوں گا تم بدزبان بھی ہوتی جا رہی ہو تمہیں بڑوں سے بات کرنے کی کوئی تمیز نہیں کچھ دن گھر بیٹھو گی تو سب سیکھ جاؤ گی جاؤ کچھ دن آرام کرو… تنویر جمال کافی برھم ہو گئے تھے اور انہوں نے ڈرائیور کو آواز دے کر بلایا اور شزا کو صاف گھر جانے کو کہہ دیانہیں جاؤنگی میں یہاں سے دیکھ لیتی ہوں آپ کیسے مجھے گھر سے نکالتے ہیں شزا پر ہٹ دھرمی چھا گئی تھی اور اسنے چیخنا شروع کر دیا.. دانیال دانیال…. وہ چیختی ہوئی پاؤں پٹختی ہوئی اپنے کمرے میں داخل ہوئی اور زور زور سے رونے لگی.دانیال پریشان ہو کر اسے چپ کرانے لگا اس نے اپنے الفاظ میں پوچھا کہ کیا ہوا کیوں رو رہی ہو.؟ آپ کے ابو مجھے گھر جانے کو کہہ رہے ہیں میں نہیں جانا چاہتی مجھے آپ کے پاس رہنا ہے آپ کا ساتھ چاہیے مگر وہ کہتے ہیں تم یہاں نہیں رہوگی اپنے گھر جاؤ آپ بتائیں کیا میں آپ کو چھوڑ کر چلی جاؤں..؟دانیال بیچارے کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا اسکا باپ ایسا کیوں کر رہا ہے اسےاس وقت اپنے باپ پر سخت غصہ آرہا تھا اور اسی غصے میں اس نے بھی چیخنا شروع کر دیاتنویر کمال اسکی چیخ سن کر جیسے ہی کمرے میں آئے وہ سمجھ گئے وہ کیا کہنا چاہتا ہےدانیال آپ خاموشی سے ایک طرف رہو میں جو کررہا ہوں آپ کی بھلائی کے لئے کر رہا ہوں اب یہ لڑکی یہاں اس گھر میں نہیں رہے گی انہوں نے ہاتھ پکڑ کر شزا کو باہر نکال کر لے جا کر گاڑی میں بٹھا دیا اور ڈرائیور کو لے جانے کو کہہ دیا وہ جیسے ہی پلٹ کر واپس آئے دانیال اپنی وہیل چئیر سے گرا ہوا زمین پر تڑپ رہا تھا اسکی حالت بگڑ رہی تھی.. جاری ہے… شاکرہ مفتی عمران