کیا قیامت خیز گرمی ہے اور اوپر سے لائٹ بھی دفع ہو گئی تھی اووفف اب اس سڑی ہوئی گرمی میں کیسے کام کرونگی یہ شزا تھی جسے ہمیشہ سے اپنی غربت سے نفرت تھی اور وہ ایک ایسے ہمسفر کی خواہش رکھتی تھی جو اسے اس گرمی کے سڑے ہوئے ماحول سے نکال کر فل بڑے سے گھر میں رکھے جہاں ہر کمرے میں اے سی لگے ہوں اسکا بس نہ چلے کچن تک میں اے سی لگوا لے وہ بڑے بڑے سپنے دیکھنے کی عادی تھی اس نے ٹھان لی تھی اس غربت زدہ زندگی سے نکل جانا ہے کسی طرح سے کوئی امیر پیسے والا بندہ ملے اور وہ اس سے شادی کر لے تاکہ اپنی بقیہ زندگی سکون سے جی سکے اس کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھا اور شزا سب سے بڑی تھی جبھی وہ سوچتی تھی کہ اگر اسکی شادی کسی دولت مند سے ہو گئی تو وہ اپنے بہن بھائیوں کی بھی زندگی میں سکون بھر پائے گی ورنہ تو یونہی سڑی ہوئی غربت زدہ زندگی گزارتے ہوئے بڈھا ہو جانا ہے اماں ابا تو کسی غریب کو ہی ڈھونڈ کر شادی کر دیں گے اور وہ کبھی غریب سے امیر نہیں بن پائے گی
پڑھائی وہ کر نہیں سکی تھی حالات اجازت ہی نہیں دے سکے کہ وہ آگے پڑھتی
آٹھویں کلاس میں فائنل امتحان کے دوران ہی اماں کی طبیعت خراب ہو گئی تھی جب بھائی پیدا ہوا تھا کیونکہ وہ گھر میں سب سے بڑی تھی تو ساری زمہ داری اس کے کاندھے پر آگئی تھی بچپن سے ہی وہ ماں کا روپ دھار چکی تھی لیکن اندر ہی اندر وہ پیچو تاب کھاتی رہتی کیا زندگی ہے ہماری چھوٹا سا خالی سا گھر جس میں سامان بھی سارا ٹوٹا پھوٹا تھا
ایک تخت جس پر امی سوتی تھیں باقی سب بہن بھائی نیچے بستر لگاتے تھے دوسرے کمرے میں جو لکڑی کے صوفے ڈال کر کچھ مہمانوں کے قابل بنایا ہوا تھا ادھر سارا دن محنت کر کے تھک ہار کر ابا جب آتے تھے تو صوفے پر پڑی ہوئی چادر کو اوڑھ کر اسی صوفے کی گدی کو سائڈ میں رکھ کر تکیہ بناتے اور سو جاتے
ابا ایک بڑے سے ہوٹل میں کام کرتے تھے جہاں سے اکثر بچا کچا کھانا لے آتے تھے تو وہ لوگ بڑے خوشی سے کھا لیتے تھے ابا کے ہوٹل میں جوب کی وجہ سے دو فائدے تھے ایک تو ان سب کو اچھا کھانا کھانے کو مل جاتا تھا
دوسرا وہاں بڑے بڑے لوگ کھانا کھاتے تھے اور شزا اکثر ابا کے ساتھ لٹک کر وہاں چلی جاتی تھی کہ شاید کوئی بڑے گھر کا لڑکا اسے پسند کر لے اور پھر وہ امیر ہو جائے
پیسے والوں کا بھی اپنا مزاج ہوتا ہے جسے ہم شاہانہ مزاج کہتے ہیں یہ پیسے والے ایک کھانا کھاتے وقت کبھی پیسہ نہیں دیکھتے کتنا خرچ ہوا اور ایک…….!!!
لڑکی خریدتے وقت…!!!
شزا اکثر اپنے باپ کے ساتھ ہوٹل جاتی تھی اسے وہاں کی چمک دمک بہت بھاتی تھی وہ جب وہاں جاتی اور سبکو ٹیبل پر ڈھیروں کھانے کھاتے ہوئے دیکھتی تو اکثر یہی سوچتی تھی ان لوگوں کا ایک وقت کا کھانا ہمارے تین دن کے کھانے کے برابر ہوتا ہے پتہ نہیں کہاں سے لاتے ہیں اتنا بڑا پیٹ جو سب ٹھونس لیتے ہیں اسے کبھی کبھی شدت سے جلن محسوس ہونے لگتی کہ اللہ میاں نے ہمیں کیوں نہیں دیا اتنا پیسہ ہمیں کیوں غریب بنا دیا کاش ہمارے پاس بھی بڑی سی گاڑی ہوتی اور ہم بھی عیش سے ایسے ہوٹل میں آکر سب کو دکھاتے دیکھو ہم بھی تمہاری طرح امیر ہیں پیسہ ہے لیکن یہ سب صرف ایک سپنا ہوتا جب وہ اپنے اسی خالی مکان میں لوٹتی تو سارا سپنا خاک میں مل جاتا وہی ٹوٹا پھوٹا سادا سا بستر وہی ابا کا صوفہ چھوٹا سا کچن اور اسکے گندے سانولے سے بہن بھائی…ایسا نہیں کہ وہ بہت بدصورت تھی ایک وہ ہی اپنے سب بھائی بہنوں میں کچھ رنگ کی صاف تھی اور پھر امیر لوگوں کو دیکھ دیکھ کر. اسے اپنے آپ کو ہر وقت سنوارنے کا شوق سر پر سوار رہتا مگر اس غربت میں وہ کتنا سنوار لیتی لگتی پھر بھی حلئے سے غریب ہی تھی کیونکہ بدصورتی بھی تو غربت کا حصہ ہوتی ہے
وہ رات کو لیٹ کر سوچتی یہ امیر لوگ اتنے گورے کیسے ہو جاتے ہیں شاید پیسہ انسان کو خوبصورت بنا دیتا ہے اس نے آج تک کوئی امیر بندہ یا بندی بدصورت نہیں دیکھی بدصورتی بھی شاید غریب کا ہی نصیب تھی یا اللہ غریب ہونا کیوں اتنی بڑی گالی ہے..؟ بیماری، چڑچڑا مزاج، بدصورتی، گندگی سب غریب کے حصے میں کیوں لکھ دی امیر کے پاس بیماری بھی آکر دور بھاگ جاتی ہے اس کے پاس پیسہ ہوتا ہے اور وہ بہتر سے بہتر ڈاکٹر کے پاس علاج کروا لیتا ہے ہشاش بشاش سگریٹ کے کش لگاتا ہوا پھر رہا ہوگا نہ اس کے پاس پیسہ ختم ہوتا ہے نہ اسکی خوبصورتی ختم ہوتی ہے امیر کے ہاتھ میں سگریٹ بھی اچھی لگتی ہے اور غریب کے ہاتھ میں سگریٹ بھی زہر لگ رہی ہوتی ہے وہ کھانس رہا ہوتا ہے امیر کو مجال ہے جو سگریٹ پیتے ہوئے کھانسی آجائے انکی تو عورتیں بھی کش پہ کش لگاتی ہیں سگریٹ کا مہنگے سے مہنگا برینڈ جو پیتے ہیں غریب تو سگریٹ بھی سستی سے سستی پیتا ہے اور جلد ہی بیماری اسے گھیر لیتی ہے
ان کے بڈھے لوگ بھی کیسے سجے سنورے نظر آتے ہیں اور غربت تو جوانی میں ہی انسان کو بڈھا کر دیتی ہے
شاید یہ بڑھاپا بھی غربت کا حصہ ہوتا ہے
باجی مجھے قائدہ پڑھا دو… وہ پھر خیالوں میں گُم تھی کہ چھوٹے بھائی صفدر نے اسے جھنجھوڑ دیا اسے مدرسے کا سبق یاد کرنا تھا اور مدرسے میں قاری صاحب کی مار یاد آکر اسے اپنا سبق یاد کرنا آگیا تھا جو وہ بھول چکا تھا اور اب شزا کے پیچھے پڑا ہوا تھا اسے قاری صاحب پھر ماریں گے اسے سبق یاد کرا دو
ارے میرے بھائی فکر نہیں کرو تمہاری بہن جب امیر ہو جائے گی تو پیسے دے کر قاری صاحب کو گھر پر بلوا کر پڑھوا لے گی اس وقت کوئی نہیں مار سکے گا یہ مار بھی غربت کا حصہ ہے ابھی کھا لو شزا نے بھی بیزاری سے جواب دیا
بھائی بیچارہ پھر منت کرنے لگا اور شزا کو نا چاہتے ہوئے بھی اپنے خواب سے باہر آکر اسے پڑھانا پڑ گیا
ابا آج میں بھی چلونگی آپ کے ساتھ.. شزا نے ابا کو جاتے ہوئے پھر فرمائش کی وہ اکثر ہی ابا کے ساتھ بائک پر لٹک کر چلی جاتی تھی اور پھر باہر بیٹھ جاتی آتے جاتے لوگوں کو دیکھتی رہتی یا پھر ہوٹل کے شیشوں سے جھانک کر اندر لوگوں کو کھاتا ہوا دیکھتی رہتی
نہیں بیٹا آج آپ کی امی کی طبیعت ٹھیک نہیں آپ گھر سنبھالو اب ویسے بھی آپ بڑی ہو گئی ہو اچھا نہیں لگتا اسطرح آپ کا باہر بیٹھنا
اسکا موڈ آف ہو گیا تھا وہ ابھی صرف سترہ سال کی ہوئی تھی لیکن اس سترویں سال میں ستر سال کی سوچ رکھتی تھی
اس کو اپنا گھر سخت نا پسند تھا بس وہ کھلی فضا میں سانس لے کر سکون محسوس کرتی تھی
اس دن بھی سخت گرمی تھی اوپر سے لائٹ چلی گئی تھی اور وہ منہ بسورتی ہوئی کام کر رہی تھی اس نے چھوٹی بہنوں کو بھی کام پر لگایا اور خود برتن دھونے چلی گئی حالانکہ ابھی نہا دھو کر کپڑے بدلے تھے ایک دم گھر کی بیل بجی شکر لائٹ آگئی وہ جلدی سے پنکھے کے سامنے آکر پسینے خشک کرتے ہوئے بہنوں کو آواز دینے لگی دیکھو دروازے پر کون ہے
لیکن جب بار بار بیل بجی اسے ہی جانا پڑا باہر وائٹ کلر کی بڑی سی کار کھڑی ہوئی تھی وہ اس کار کو دیکھ کر حیران رہ گئی یہ کسکی گاڑی ہے اور ہمارے غریب خانے پر..
یہ شبیر احمد کا گھر ہے..؟ سائڈ سے ایک ادھیڑ سی عمر کا آدمی سامنے آگیا
جی شزا نے اپنا سر کا دوپٹہ ٹھیک کرتے ہوئے جواب دیا
کون ہیں آپ انکی..؟ اس شخص نے دوبارہ سوال کیا
بیٹی… شزا نے دھیرے سے جواب دیا
انہیں کرنٹ لگ گیا ہے اور ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے ویسے تو اب جان خطرے میں نہیں ہے لیکن وہ ابھی بیہوشی میں ہیں آپ لوگ میرے ساتھ چل سکتے ہیں..
وہ حیران پریشان روتی ہوئی اندر بھاگی جلدی سے اماں کو ساتھ لیا اماں نے برقع اوڑھا اور بہن بھائ کو ساتھ لیا ان صاحب کی گاڑی میں ہسپتال پہنچ گئی
زندگی میں پہلی بار وہ اتنی بڑی گاڑی میں بیٹھی تھی لیکن موقع ایسا تھا کہ اس وقت وہ گاڑی بھی مزہ نہیں دے رہی تھی ابا کا خیال ستا رہا تھا یا اللہ میرے ابا کو کچھ نہ ہو وہ ہی تو ایک سہارا ہیں وہ بھی چلے گئے تو ہم کیا کریں گے… آنسو خود بہ خود اسکی آنکھیں بھگو رہے تھے گاڑی کے سامنے والے مرر سے دو آنکھیں اس پر ٹکی ہوئی تھیں..❤️