واشنگٹن(سچ نیوز)امریکہ اگرچہ آج بھی بہت سے غیر ملکی طالب علموں کے لئے اعلیٰ تعلیم کے حصول کی ایک پرکشش منزل ہے اور ہر سال دس لاکھ سے زیادہ غیر ملکی طالب علم امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم نئے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ دلچسپی بتدریج کم ہوتی جا رہی ہے۔ گزشتہ سال کے دوران انڈر گریجوایٹ ڈگری کے لئے امریکہ آنے والوں کی تعداد میں 6.6 فیصد کمی دیکھی گئی۔غیر ملکی طالب علموں کی آمد سے امریکی معیشت کو ہر سال42 ارب ڈالر کا فائدہ ہوتا ہے اور روزگار کی منڈی میں ساڑھے4لاکھ ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ یوں غیر ملکی طالب علموں کی امریکہ آمد امریکی معیشت کے لئے بے حد اہم ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امریکی انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل ایجوکیشن ( آئی آئی ای) کے ایک جائزے سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سی دیگر وجوہات کے علاوہ صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی، سلامتی کی صورت حال اور ویزہ پالیسی میں تبدیلی اس کا اہم سبب ہیں۔یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے پروفیسر ٹیموتھی برنالڈ نے کہاکہ امیگریشن پالیسی کے بارے میں دیئے جانے والے بیانات بڑی حد تک اشتعال انگیز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ غیر ملکی طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے امریکہ کے انتخاب پر آمادہ کرنے کے لئے وہ مختلف ملکوں کا دورہ کرتے ہیں اور وہاں جب وہ امکانی طالب علموں اور ان کے خاندان سے ملتے ہیں تو وہ صدر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاید انہیں امریکہ میں خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔امریکہ میں سرکاری یونیورسٹیوں کی سالانہ فیس 20 ہزار ڈالر کے لگ بھگ ہے جبکہ نجی یونیورسٹیوں کے اخراجات 70 ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کچھ ماہرین کا کہنا تھا کہ مہنگی تعلیم کے باعث بھی غیر ملکی طالب علموں کی امریکہ میں دلچسپی کم ہو رہی ہے۔آئی آئی ای کی ترجمان کیتھرین مورس کا کہنا تھا کہ 65 فیصد غیر ملکی طالب علم امریکہ میں اپنے تعلیمی اخراجات کے لئے بین الاقوامی فنڈنگ پر انحصار کرتے ہیں اور نصف سے زیادہ یعنی تقریباً 59 فیصد غیر ملکی طالب علم ذاتی یا خاندان کے مالی وسائل کا استعمال کرتے ہیں۔آئی آئی ای کے جائزے کے مطابق دنیا کے متعدد ممالک نے امریکہ میں غیر ملکی طالب علموں کی دلچسپی میں کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نسبتاً کم تعلیمی اخراجات کے ساتھ انہیں اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں اور اب اس سلسلے میں امریکہ کا کینیڈا اور برطانیہ جیسے ممالک سے مقابلہ سخت ہوتا جا رہا ہے۔