ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بے انتہا مہربان، بے پناہ شفیق، بے حد مخلص اور مسلمانوں پر تو تھے ہی تھے لیکن کافروں پر بھی بے پناہ رحیم و کریم شخص تھے۔ یہ تو ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا باطنی سخن و جمال تھا مگر ظاہری طور پر بھی ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے پناہ حسن والے انسان تھے۔اللہ تعالیٰ نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو انتہائی درجے کے حسن و جمال سے نوازا تھا، ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنے زیادہ حسین و جمیل تھے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص، کوئی ذی روح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حسن و جمال کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جس خوبصورتی اور محبت کے ساتھ بغیر کسی مبالغہ آرائی کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کو بیان کیا ہے وہ رہتی دنیا تک ہماری کتب احادیث میں محفوظ رہے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال اور ان کے حلیہ مبارک کے متعلق چند روایات یہ ہیں۔حضرت ام معبد رضی اللہ عنہا کے خیمے پر سے ہجرت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی کے بعد ان صحابیہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک اس طرح بتایا کہ میں نے ایک ایسا مرد دیکھا جس کا حسن نمایاں تھا جس کی ساخت بڑی خوب صورت اور چہرہ ملیح تھا۔
نہ رنگت کی زیادہ سفیدی اس کو معیوب بنا رہی تھی اور نہ گردن اور سرکا پتلا ہونا اس میں نقص پیدا کررہا تھا۔ بڑا حسین، بہت خوب روٴ۔ آنکھیں سیاہ اور بڑی تھیں، پلکیں لانبی تھیں۔ اس کی آواز گونج دار تھی۔ سیاہ چشم۔ سرمگین۔ دونوں ابروٴ باریک اور ملے ہوئے۔ گردن چمک دار تھی۔ ریش مبارک گھنی تھی۔ جب وہ خاموش ہوتے تو پر وقار ہوتے۔ جب گفتگو فرماتے تو چہرہ پر نور اور بارونق ہوتا۔
شیریں گفتار۔ گفتگو واضح ہوتی نہ بے فائدہ ہوتی نہ بے ہودہ۔ گفتگو گویا موتیوں کی لڑی ہے جس سے موتی جھڑ رہے ہوتے۔ دور سے دیکھنے پر سب سے زیادہ با رعب اور جمیل نظر آتے۔ اور قریب سے سب سے زیادہ شیریں اور حسین دکھائی دیتے۔ قد درمیانہ تھا۔ نہ اتنا طویل کہ آنکھوں کو برا لگے۔ نہ اتنا پست کہ آنکھیں حقیر سمجھنے لگیں۔ آپ دو شاخوں کے درمیان ایک شاخ کی مانند تھے جو سب سے سر سبز و شاداب اور قد آور ہو۔
ان کے ایسے ساتھی تھے جو ان کے گرد حلقہ بنائے ہوئے تھے۔ اگر آپ انہیں کچھ کہتے تو فوراً تعمیل کرتے۔ اگر آپ انہیں حکم دیتے فوراً بجا لاتے۔ سب کے مخدوم۔ سب کے محترم۔“
ایک حدیث جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر بڑا تھا، جوڑوں کی ہڈّیاں بھاری بھاری تھیں،سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی، جب نبی مہربان صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو قدرے جھک کر چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہوں۔
ایک اور روایت جو کہ ابوطفیل کی ہے فرماتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم گورے رنگ، پرملاحت چہرے اور میانہ قدو قامت کے تھے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آپ کا دہانہ کشادہ تھا، آنکھیں ہلکی سرخی لیے ہوئے اور ایڑھیاں مبارک باریک تھیں۔حضرت ابن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھی، رنگ چمک دار، نہ خالص سفید نہ گندم گوں، وفات کے وقت تک سر اور چہرے کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے صرف کنپٹی کے چند بالوں میں سفیدی تھی اور چند بال سر کے سفید تھے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر مبارک درمیانہ تھا، دونوں کاندھوں کے درمیان دوری تھی، بال دونوں کانوں کی لو تک آتے تھے، میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ (دھاری دار) جوڑا زیب تن کیے ہوئے دیکھا کبھی کوئی چیز ان سے زیادہ حسین نہ دیکھی۔اسی طرح ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سب سے زیادہ خوبصورت تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سب سے زیادہ بہتر تھے ان سے دریافت کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا،انہوں نے کہا: نہیں بلکہ چاند اور سورج جیسا تھا۔
ایک روایت میں ہے کہ گولائی لیے ہوئے تھا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک مرتبہ چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت سرخ دھاریوں والا جوڑا زیب تن کیا ہوا تھامیں کبھی چاندکو دیکھتا اور کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے زیادہ خوبصورت ہیں۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہوتے تھے تو چہرہ مبارک دمک اٹھتا تھا گویا چاند کا ٹکڑا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوتے تو چہرہ انور سرخ ہوجاتا گویا دونوں رخساروں میں دانہ انار نچوڑ دیا گیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حسن و جمال تھا جو چند روایات میں بیان ہوا ہمیں پڑھنے میں اتنا زیادہ حسن و جمال معلوم ہوتا ہے تو اصل میں دیکھنے والوں کی کیا شان ہوگی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لمس یعنی ان کا چھونا ان کے جسم کی نرمی حریر و ریشم سے بھی زیادہ نرم تھی اور ان کے پسینے کی خوشبو مشک و عنبر کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ اور بہترین تھی۔حضرت صحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ لے کر اپنے چہرہ پر رکھا تو وہ مشک سے زیادہ خوشبودار تھا اور برف سے زیادہ ٹھنڈا تھا۔
یہ ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر مبارک تھا اتنے زیادہ خوبصورت تھے مگر پھر بھی بے انتہا تواضع کرنے والے انسان تھے، سب سے زیادہ منکسر المزاج، سب سے زیادہ عاجزی بھی ان میں موجود تھی، چال میں بھی انکساری تھی کہ جھک کر چلتے تھے اور پھر بھی غرور و تکبر سے بالکل پاک و صاف اورگناہوں اور خطاوں سے بالکل معصوم بے انتہا شفیق ذات صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔اللہ ہم سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہامحبت و عقیدت رکھنے والا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح معنوں میں پیروی کرنے والابنائے۔ آمین