تحریر : قمر گوندل
ٹیچر نے کلاس روم میں داخل ہوتے ہی ہائے گڈمارننگ کہتے ہوئے گلے سے ڈوپٹہ اتار کر اسے فولڈ کر کے منی بیگ میں رکھ دیا کلاس میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے بیٹھے تھے ناصر بهی ٹیچر فائزہ کا سٹوڈنٹ تها جو ہمیشہ پیچھے بیٹھتا تها 13 سال کی عمر تجی بلوغت کے دن تھے ناصر کی اس عمر میں جسمانی و ذہنی تبدیلی رونما ہو رہی تھی
ان دنوں اسے عجیب سی فیلنگز ہو رہی تھی ذہن کی پختگی کا احساس اور شعور کی طرف قدم رکھ رہا تھا
فائزہ ایک اچهی سائنس ٹیچر تھی بچوں کے ساتھ فرینکنس اور محبت کے ساتھ پیش آنا سمائل سے گفتگو کرنا ہر ایک کو ایسے مخاطب کرنا جیسے ٹیچر مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں
فائزہ کی عمر 21 سال تھی خوبصورت شکل کے ساتھ ساتھ انداز، مزاج خوبصورت تھے
ناصر کے پاس جب بهی ٹیچر کچھ پوچھنے آتی تو ٹیچر کی لگائی ہوئی ہلکی سی میٹهی خوشبو اس کے دل و دماغ کو معطر کر دیتی جس سے چند لمحوں کیلئے ناصر کو دنیا کی رنگینیوں کا احساس ہوتا ہونہار طالب علم کو میڈم کی محبت رفتہ رفتہ دل میں گهر کر کے اپنا مقام بنا چکی تھی ناصر کا دل و دماغ اب پڑهائی کی بجائے ٹیچر کی خوبصورت گفتگو سننے کیلئے بے تاب ….
میڈم جب تک کلاس روم میں رہتی سر تو دور گلے میں بھی ڈوپٹہ نہ رہتا (غالباً ٹیچر نے عامر لیاقت کا پروگرام دیکھا ہوگا ) ناصر ٹیچر کو ایک الگ نظر سے دیکھتا …. اس کے چارمنگ سٹائل میڈم کی چال ڈھال ، میک اپ ، ذلفیں ، لباس ، صدر و عین اس کی آنکھوں میں تیر کہ طرح پیوست ہو رہے تھے ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ شاید ناصر کے دل کی دنیا اب میڈم نے ہی آباد کرنی ہے اس کے بغیر زندگی بے سود سی بے رونق سی دنیا کی خوشیاں ماند ہیں اس کی رنگینیوں کا حسن گویا ختم
ٹیچر کو دیکھنے میں روح کی تسکین ہونے لگی دل ہی دل میں اسے حاصل کرنے کے لیے تڑپ پیدا ہو رہی تھی ….
عقلی و شعور کی پختگی نہ ہونے کہ وجہ سے ٹیچر کو اپنے دل کہ دیواروں کے رنگ و بو بتا نہیں سکتا تها بس انہی رنگین دیواروں میں لاحاصل سر مارتا رہتا اس کی یہ کیفیت کیوں ہوگئی یہ ناصر کو خود بھی علم نہیں تھا زمانہ بلوغت کتنا حساس ہوتا ہے والدین کیوں نہیں سمجھتے …
ناصر ٹیچر کے عشق میں غرق ہو چکا تھا شاید قلزم فائزہ کی ابهرتی ہوئی لہروں نے اسے مار کر ساحل پر اتار دیا تھا
والدین کو تو نہ بتا سکا اپنی حالت لیکن ٹیچر جو اس کی کیفیت محسوس کر رہی تھی اسے بتا گیا کہ تم میری نہیں ہو سکتی میں بھی کسی کا نہیں ہو سکتا …. آخر کار دی اینڈ ہوگیا قصہ خودکشی میں تمام ہوگیا !!!
اب اگر میں کہوں کہ قصور ٹیچر کا ته تھا تب بھی میں مجرم …
کیونکہ استاد تو والدین کا درجہ رکھتے ہیں لیکن آج ٹیچر خود کو استاد کی طرح نہیں بلکہ بطورِ ماڈل فیشن ایبل بن کر فقط دنیاوی علم اور روشن خیالی کی طرف راغب کر رہے ہیں جس سے بچوں میں منفی خیالات و اثرات مرتب ہو رہے ہیں جس سے ہمارے بچے مستقبل میں سائنس دان تو بن جاتے ہیں مگر ایک اچھے انسان نہیں !!
اگر کہوں کہ قصور والدین کا تھا تب بھی میں مجرم …
کیونکہ کوئی ماں باپ بھی اپنے بچوں کا برا نہیں سوچتے لیکن ان سے جو غلطیاں سرزد ہوتی ہیں وہ غیر معمولی ہوتی ہیں اپنے بچے کی حرکات و سکنات پر نظر نہ رکھنا
ان کے ساتھ دوستانہ ماحول نہ بنانا ان کے دل کی بات نہ پوچهنا ان کو اہمیت نہ دینا ان کے دوستوں پر نظر نہ رکھنا
ان کی اچهی تربیت نہ کرنا یہی غلطیاں ہیں والدین کی جو مستقبل میں بچے کو نہ اچجا باپ بننے دیتی ہیں نہ اچھا انسان بلکہ والدین کو بھی بچے ٹھوکر مار دیتے ہیں پهر ماں باپ اولاد کی نافرمانی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں !!
اگر کہوں کہ قصور ٹی وی اور میڈیا کا تھا تب بهی میں مجرم
کیونکہ فحش میڈیا کو برا کہو تو لوگ آپ کو شدت پسند اور محدود سوچ کا مالک کہیں گے
حالانکہ یہی میڈیا آپ کے بچوں کی غلط تربیت کر رہا ہے میڈیا بےحیائی کو روشن خیالی اور فیشن باور کرواتا ہے جس سے ینگ جنریشن کو بیمار زہن کا مالک بنا رہا ہے لڑکے لڑکیوں سے فلرٹ ہر نوجوان کے ذہن میں فلموں ڈراموں کے ذریعے عشق و محبت کے نام پر گندگی ڈال رہا ہے ڈراموں میں محبت کے افسانے عشق کیلئے مرنا خود کشی کرنا محبت پانے کیلئے ہر اک حد سے تجاوز کر جانا یہ میڈیا ہماری نسل کو کیا دے رہا ہے سوچیں ضرور سوچیں !!
اگر کہوں کہ قصور مخلوط تعلیم کا تھا تب بھی میں مجرم قرار
کیونکہ مخلوط تعلیم کے دلدادہ تو روشن خیال لبرل ہیں جنہیں بیٹی کی عزت کا خیال نہ حیاء کا پاس البتہ بیٹی کے بوائے فرینڈ کا بہت خیال ہوتا ہے یہ مخلوط نظام تعلیم کے حامی بیٹی کے کلاس فیلو کے ساتھ ڈیٹ پر جانے کو روشن خیالی اور برابری تصور کرتے ہیں حالانکہ اسی مخلوط سسٹم نے ہماری نسلیں اور جوان فصلیں تباہ کر کے رکھ دی بےحیائی بےحسی معاشرے میں عام کر دی ایک وقت تھا بہن بیٹی کو سیپ میں موتی کی طرح ڈهانپ کر رکجا جاتا تھا آج ہالف بازو پہن کر کالج آنے والی کو عزت دی جاتی ہے ننگے سر رہنے والی کو ماڈرن کہا جاتا ہے اس کے برعکس حیاء کا تاج ماتھے پر سجانے والی بیٹی کو 14سو سال پرانی سوچ کا مالک کہا جاتا ہے زہرا کی بیٹی کو پتھر کے دور کا کہہ کر طعنے دیئے جاتے ہیں میں کیوں نہ تڑپوں اسے معاشرے کی بےحسی پر کیوں نہ خون کے آنسو روؤں کہ جوان بیٹے بیٹیاں کس طوفان بےحیائی میں ڈوب رہے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ ساحل پہ بیٹھے یہ طوفان کی موجوں میں اپنی نسل و فصل کو غرق ہوتے بڑے شوق سے دیکه رہے ہیں –