نئی دہلی(سچ نیوز)بھارت کے سینئر سیاست دان ،سابق وزیر اور سینئر صحافی ایم جے اکبر کی پریشانیاں ہیں کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں،ایم جے اکبر کے خلاف جاری مہم ’’می ٹو‘‘ میں اب ایک اور خوفناک انکشاف سامنے آیا ہے ، ہندوستان کے سینئر سیاست دان کے خلاف عصمت دری کا تازہ الزام ایک انڈین نژاد امریکی خاتون صحافی نے عائد کرتے ہوئے ایسی کہانی بیان کر دی ہے کہ جسے سن کر ہر کوئی ہکا بکا رہ گیا ہے تاہم ایم جے اکبر نے خاتون صحافی کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہوا باہمی رضامندی سے ہوا ، دوسری طرف ایم جے اکبر کی اہلیہ بھی اپنے شوہر پر لگنے والے تازہ الزام کے بعد ان کے دفاع میں میدان میں آ گئیں ہیں اور ایسی بات کہہ دی ہے کہ کسی کو بھی یقین نہیں آئے گا ۔بھارتی میڈیا کے مطابق ہندوستان کے سینئر سیاستدان ،سابق وزیر اور معروف صحافی ایم جے اکبر مشکلات میں گھرتے جا رہے ہیں ،ان کے خلاف جاری ’’می ٹو ‘‘ کی مہم میں بھی تیزی آ گئی ہے اور اب ان پر عصمت دری کا الزام کسی اور نے نہیں بلکہ 23سال قبل کئی سالوں تک ان کے ساتھ انگریزی اخبار ’’ایشین ایج ‘‘ میں ان کے ماتحت کام کرنے والی ایک خاتون صحافی نے لگایا ہے ۔ پلوی گوگوئی نامی ایک انڈین نژاد امریکی خاتون صحافی نے’’ واشنگٹن پوسٹ ‘‘ میں لکھی گئی آپ بیتی میں جے ایم اکبر پر عصمت دری کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ایم جے اکبر جو کہ انگریزی اخبار ’’ ایشین ایج ‘‘ کے ایڈیٹر ان چیف تھے، نے مجھے اپنا شکار بنانے کے لیے اپنے عہدہ کا استعمال کیا۔ آج میں جو شیئر کر رہی ہوں وہ میری زندگی کی سب سے تکلیف دہ یاد ہے۔ اس یاد کو میں 23 سال سے بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ دو دہائی پہلے میں نے اپنے دو دوستوں سے یہ واقعہ بیان کیا تھا۔ اسی وقت اپنے شوہر سے بھی اس کے بارے کہا تھا اور انہیں بتایا تھا کہ ایم جے اکبر نے میرے ساتھ جے پور میں عصمت دری کی تھی۔امریکہ میں نیشنل پبلک ریڈیو (این پی آر )میں بطور چیف بزنس ایڈیٹر کام کرنے والی پلوی گوگوئی نے اپنے پرانے زخم کریدتے ہوئے لکھا کہ میری عمر اس وقت 22 سال تھی اور میں ایشین ایج میں کام کرنے گئی تھی۔ یہاں خواتین کی تعداد کافی زیادہ تھی، زیادہ تر کالج پاس آؤٹ لڑکیاں تھیں۔ ہمیں اس وقت صحافت کی بنیادی چیزوں کی بھی پوری طرح سمجھ نہیں تھی جبکہ ایم جے اکبر کافی مشہور صحافی تھے، سیاست سے متعلق وہ دو کتابوں کے مصنف تھے اور مدیر بھی،جے ایم اکبر کی عمر اس وقت تقریباً 40 سال تھی۔ وہ ہمارے ہمارے تیار کئے اخبار کے صفحات چیک کرتے اور غلطیوں پر سرخ قلم سے گول دائرہ مار دیتے اور غلطیاں زیادہ ہونے پر صفحات کو کوڑے دان میں پھینک دیتے تھے۔ ایسا شاید ہی کوئی دن ہوتا تھا جب وہ غصے اور اونچی آواز میں ہم سے نہیں بولتے تھے۔ ہم کبھی کبھی ہی ان کے معیار پر پورا اترتے تھے۔ ایم جے اکنر ہمارے ساتھ اکثر نازیبا الفاظ کا بھی استعمال کرتے تھے لیکن میں سوچتی تھی کہ آخر کچھ سیکھ تو رہی ہوں۔پلوی گوگوئی لکھتی ہیں کہ ’’میں 23 سال کی عمر میں اخبار کے ایڈیٹوریل صفحات کی مدیر بن گئی۔ مجھے صف اول کے کالم نگاروں، بڑے سیاسی لیڈروں اور سماج کے دانشور لوگوں جیسے جسونت سنگھ، ارون شوری، نلنی سنگھ کو فون کرنا ہوتا تھا، یہ میرے لیے چھوٹی سی عمر میں ایک بڑی ذمہ داری تھی لیکن اس ملازمت کی مجھے ’’بڑی قیمت‘‘ ادا کرنی پڑی جس سے میں بے پناہ محبت کرتی تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ یہ 1994 کی بات ہے کہ جب میں ایڈیٹر ان چیف کے دفتر میں گئی، ان کے کمرے کا دروازہ اکثر بند رہتا تھا۔ میں نے انہیں اپنا تیار کیا گیا پیج دکھانے گئی تھی۔ انھوں نے میرے کام کی تعریف کی اور اچانک مجھے ’’کس ‘‘ کرنے لگے، میں شرم سے لال ہو گئی اور الجھن کے ساتھ باہر نکلی۔ میری دوست آج بھی مجھے بتاتی ہے کہ اس دن میرا چہرہ کیسا ہو گیا تھا؟ جب اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے فوراً اسے پوری بات بتا دی۔پلّوی اس واقعہ کے بعد کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھتی ہیں کہ ’’کچھ مہینوں بعد دوسرا واقعہ تب ہوا جب مجھے میگزین کے لانچ کے لیے ممبئی بلایا گیا تھا۔ ایم جے اکبر نے تاج ہوٹل کے اپنے کمرے میں مجھے میگزین کے ڈیزائن کو دیکھنے کے لیے بلایا۔ جب انھوں نے یہاں دوبارہ مجھ سے’’ بوس و کنار‘‘ کرنے کی کوشش کی تو میں نے انھیں دھکا دے دیا، جس پر انھوں نے میرے چہرے پر کھرونچ بھی لگا دی، میں روتے ہوئے دوڑ کر باہر نکلی۔ اس شام میں نے کھرونچ کے بارے میں پوچھے جانے پر ایک دوست کو بتایا کہ ہوٹل میں گر گئی تھی۔ جب میں دہلی آئی تو اکبر نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے کسی طرح کی مخالفت کی تو وہ مجھے ملازمت سے نکال دیں گے لیکن میں نے اخبار نہیں چھوڑا۔ میں صبح آٹھ بجے دفتر آتی تھی۔ میرا ٹارگٹ 11 بجے تک ایڈیٹوریل پیج کو تیار کرنا رہتا تھا۔وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’بمبئی والے واقعہ کے کچھ دن بعد ایک سٹوری کرنے کے سلسلے میں مجھے دہلی سے سینکڑوں کلو میٹر دور ایک گاؤں میں جانا پڑا۔ اس اسائنمنٹ کو جے پور میں کرنا تھا۔ایم جے اکبر نے مجھے جے پور کے ہوٹل کے کمرے میں سٹوری پر گفتگو کرنے کے لیے بلایا۔ یہاں انھوں نے میرے ساتھ عصمت دری کی۔ ہوٹل کے کمرے میں کافی دیر تک ان سے لڑی، لیکن وہ جسمانی طور پر مجھ سے مضبوط تھے۔ انھوں نے میرے کپڑے پھاڑ دیے اور میرے ساتھ زبردستی کی۔ میں پولس میں شکایت کرنے کی جگہ شرم سے بھر گئی، تب میں نے اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا تھا۔ کیا اس وقت میرے اوپر کوئی یقین کرتا؟ میں خود کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی۔ میں اس ہوٹل کے کمرے میں آخر کیوں گئی؟ کچھ مہینوں تک وہ مجھے جنسی اور جذباتی طور پر ہراساں کرتے رہے۔ اگر وہ مجھے کسی مرد کولیگ سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیتے تھے تو ڈانٹ دیتے تھے۔ یہ کافی ڈراؤنا تھا۔پلّوی گوگوی بتاتی ہیں کہ ’’میں اکثر رپورٹنگ اسائنمنٹ دیکھتی تھی۔ میں نے دسمبر 1994 میں کرناٹک کے ایک بڑے لیڈر کا انٹرویو کیا تھا۔ اس کے بعد ایک جے اکبر نے کہا تھا کہ وہ مجھے انعام کے طور پر یا تو امریکہ بھیجیں گے یا انگلینڈ۔ مجھے دونوں ملک میں کام کرنے کا ویزا مل گیا۔ میں لندن گئی۔ میں نے یہ سوچا کہ اب مجھے یہیں رکنا چاہیے کیونکہ میں دہلی کے دفتر سے دور رہوں گی لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ مجھے اس لیے دور بھیجنا چاہتے تھے کہ مجھے کسی طرح سے اپنے دفاع کا موقع نہ مل سکے۔ یعنی جب بھی وہ شہر میں آئیں تو مجھے اپنا شکار بنا سکیں۔ لندن دفتر میں ایک بار کام کرنے کے دوران انھوں نے مجھے ایک مرد کولیگ سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور کافی غصہ ہوئے تھے اور ڈیسک سے ساری چیزیں اٹھا کر پھینک دیں تھیں جبکہ اس موقع پر انہوں نے میرے اوپر ہاتھ بھی اٹھایا تھا جس پرمیں دفتر سے بھاگ کر ایک پارک میں جا کر چھپ گئی تھی۔ اگلے دن میں نے اپنی دوست کو اس بارے سب کچھ بتا دیا تھا۔ میں جسمانی، جذباتی اور ذہنی طور پر ٹوٹ چکی تھی،میں جانتی تھی کہ مجھے لندن سے باہر جانا پڑے گا، میں نے اپنی دوست کو بتایا کہ میں اس تکلیف سے بھاگنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس واقعہ کے بعد پلّوی کے مطابق انھوں نے ملازمت چھوڑ دی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ دن بعد انھیں نیویارک میں رپورٹنگ اسسٹنٹ کی ملازمت بھی مل گئی تھی۔دوسری طرف پلوی گوگوی کی جانب سے اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کے بعد ہندوستان کے سینئر سیاستدان اور سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر کا بیان بھی آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ پلّوی گوگوئی کے ساتھ انھوں نے عصمت دری نہیں کی بلکہ یہ تعلقات تو باہمی رضا مندی سے بنے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ مہینوں تک یہ سب چلا اور پھر ختم ہو گیا،گوگوی کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے میری ذاتی گریلوزندگی بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی ۔ ایم جے اکبر کی اہلیہ ملیکا اکبر نے بھی اپنے شوہر کے دفاع کے لئے میدان میں آتے ہوئے پلوی گوگوی کے الزامات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صاف جھوٹ بول رہی ہے ، گوگوئی کی وجہ سے ان کے گھر کا ماحول کشیدہ رہا اور لڑائی جھگڑے ہوتے رہے۔ وہ مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پلوی گوگوی ان کے گھر آتی تھیں، شراب نوشی کرتی تھیں، اکبر کے ساتھ تقاریب میں رقص کرتی تھیں اور کبھی اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگا کہ ان پر کوئی دباؤ ہے یا وہ جنسی