ابھی اس طرف نہ نگاہ کر میں غزل کی پلکیں سنوار لوں
میرا لفظ لفظ ہو آئینہ تجھے آئینے میں اتار لوں
میں تمام دن کا تھکا ہوا توں تمام شب کا جگا ہوا
زرا ٹھر جا اسی موڑ پر تیرے ساتھ شام گزار لوں
آگر آسمان کی نمائشوں میں مجھے بھی ازنِ قیام ہو
تو میں موتیوں کی دکان سے تیری بالیاں تیرے ہار لوں
کہیں اور بانٹ دے شہرتیں کہیں اور بخش دے عزتیں
میرے پاس ہے میرا آئینہ میں کبھی نہ گردوغبار لوں
کہیں اجنبی تیری راہ میں میرے پاس سے یوں گزر گئے
جنہیں یہ دیکھ کر تڑپ ہوئی میں تیرا نام لیکر پکار لوں
123