<h4>آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے دل کی گہرائی سے رونے کی صدا آتی ہے</h4> <h4>یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں تشنگی ساغر لبریز سے ٹکراتی ہے</h4> <h4>شعلۂ غم کی لپک اور مرا نازک سا مزاج مجھ کو فطرت کے رویے پہ ہنسی آتی ہے</h4> <h4>موت اک امر مسلم ہے تو پھر اے ساقی روح کیوں زیست کے آلام سے گھبراتی ہے</h4> <h4>سو بھی جا اے دل مجروح بہت رات گئی اب تو رہ رہ کے ستاروں کو بھی نیند آتی ہے</h4> <h4>اور تو دل کو نہیں ہے کوئی تکلیف عدمؔ ہاں ذرا نبض کسی وقت ٹھہر جاتی ہے</h4>