­
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان… قسط نمبر 61 – MAST MAST FM
8 °c
Islamabad
7 ° ہفتہ
8 ° اتوار
10 ° پیر
10 ° منگل
جمعرات, مئی 22, 2025
  • Login
  • صفحہ اول
  • Live Tv
  • Chat Room
  • شاعری
  • ہماری ٹیم
  • مزید
    • ویڈیو آرکائیو
    • غربت کا حصہ
    • کہانیاں
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • Live Tv
  • Chat Room
  • شاعری
  • ہماری ٹیم
  • مزید
    • ویڈیو آرکائیو
    • غربت کا حصہ
    • کہانیاں
No Result
View All Result
No Result
View All Result
ہوم کہانیاں
درندوں کے شکاری کی سرگزشت…قسط نمبر 54

آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان… قسط نمبر 61

آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان... قسط نمبر 61

15/06/2019
0 0
0
شئیرز
36
ویوز
Share on FacebookShare on Twitter

مجھے اس کہانی پر یقین نہ آیا۔یہ سراسر توہمات پر مبنی تھی۔میں نے تحقیق کرنے کا فیصلہ کیا اور کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر دریائے چنار کی گزر گاہ چھان ماری مگر کہیں کسی شیرکے پنجوں کے نشان دکھائی نہ دیے۔پھر میں نے سوچا،شاید درندہ مشرق سے نمودار ہوا ہو۔اس طرف ہرے بھرے کھیتوں کا وسیع سلسلہ تھا۔ اگرچہ شیر کبھی کھیتوں میں بسیرا نہیں کرتا مگر دیکھ لینے میں کیا ہرج تھا۔ اس طرف بھی میری تلاش لا حاصل ثابت ہوئی۔

آخر میں نے چرواہوں سے درخواست کی کہ وہ مجھے سیٹھ کے مویشیوں سے دو چار جانور عاریتہ دے دیں تاکہ میں انہیں چارے کے طور پر استعمال کرکے شیر کو موت کے گھاٹ اتار سکوں مگر گاؤں کا ایک شخص بھی میرے ساتھ تعاون پر آمادہ نہ ہوا۔ ان کا خیال تھا ہ وہ اپنے ہی ایک ساتھی کی روح کو جو شیر کے روپ میں ظاہر ہو گی، کسی مصیبت میں گرفتار کرنے میں مدد نہیں دے سکتے۔ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ ابھی کوئی ایسی گولی ایجاد نہیں ہوئی جو کسی روح کو موت کے گھاٹ اتار سکے۔

پیسہ سب کام کروا لیتا ہے۔میں نے ان چرواہوں کو معقول رقم دے کر مویشی حاصل کر لیے جو پجاری نہ تھے، انہیں دھرم پر اتنا یقین نہ تھا ۔میں نے چار مختلف جگہوں پر بھینسیں باندھ دیں تاکہ پتا چل سکے کہ شیر جنگل میں موجود ہے یا نہیں۔رات ہونے میں بھی دیر تھی، اس لیے میں نے جنگل میں گھومنے پھرنے کا پروگرام بنایا۔چونکہ بستی کے لوگ میرے ساتھ تعاون نہیں کررہے تھے، اس لیے میں نے اپنے دوست بائرا اور شکاری رنگا کو ساتھ رکھا۔ یہ دونوں جنگل کے ماہر تھے۔ ہم تینوں مارے مارے پھرتے رہے۔کوئی ایسا نشان نظر نہ آیا جو شیر کے پنجوں سے مشابہہ ہو۔

شیر جس خاموشی سے نمودار ہوا تھا، اسی خاموشی سے روپوش ہو چکا تھا۔ میرا بنگلور واپس جانے کا دن آپہنچا۔میں نے چاروں بھینسیں واپس کر دیں۔ساتھ ہی چرواہوں کو خوش کرنے کے لیے کچھ انعام سے بھی نوازا۔

دو ماہ بعد داس اکیلا کار میں سفر کررہا تھا۔ وہ65میل دور سالم کے ہسپتال میں گوپال سوامی کو چھوڑ کر آیا تھا جہاں وہ آنکھوں کا آپریشن کروانا چاہتا تھا۔ دھرمپورہ تک ابھی40میل کا سفر اور درپیش تھا۔ یہاں سڑک تنگ ہو گئی اور آگے ایک تالاب کی وجہ سے موڑ تھا جسے ظاہر کرنے کے لیے اینٹوں کی دیوار چن دی گئی تھی جس سے سڑک تنگ ہو گئی تھی۔سامنے سے کسی ٹریفک کی امید نہ تھی۔اس لیے داس نے کار کی رفتار تیز کر دی۔

معلوم نہیں وہ اسٹیرنگ پر قابو نہ رکھ سکا یا پھر اگلا ٹائر پھٹ گیا۔ کسی کو یقینی طور پر وجہ معلوم نہیں۔اس حادثے کے صرف دو گواہ ہیں جو اس وقت تیزی سے گھروں کی طرف جارہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کار اچانک سڑک سے نیچے اتری اور موڑ پر اینٹوں کی دیوار سے ٹکرا گئی۔چشم زدن میں وہ تالاب کے اندر گر چکی تھی۔

داس نے درندوں کے خوف کی وجہ سے شیشے چڑھا رکھے تھے۔ اس طرح وہ کار کے اندر بند ہو کر رہ گیا اور اس کے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ ایک ہفتے بعد پولیس نے کرین کی مدد سے کار باہر نکالی تو اس کی لاش برآمد ہو گئی۔

کیا یہ محض اتفاق تھا کہ وہ اسی تالاب میں غرق ہو گیا تھا جس میں اس نے کیا را پجاری کی لاش پھینکی تھی؟ سیٹھ نرائن کو جب یہ خبر ملی تو اس پر دیوانگی کے دورے پڑنے لگے۔پہلے اس کا بچہ اور بیوی موت کے منہ میں پہنچے اور اب شوفرداس۔۔۔اور پھر۔۔۔! لازماً آئندہ اسی کی باری تھی۔اس جال سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آتا تھا۔ سوامی گوپال آپریشن کروا کر گاؤں لوٹا تو اس نے اپنے نوجوان بیٹے کو پاگل پن کی گرفت میں پایا۔وہ فوراً اسے سالم کے ہسپتال میں لے گیا اور روپیہ پانی کی طرح بہا دیا۔ بہترین ڈاکٹروں نے اس کا علاج کیا۔ نرائن نیم بے ہوشی میں کیارا اور مروی کا نام بڑبڑاتا رہتا اور ڈاکٹر کوئی تدبیر نہ کر سکے۔

سیٹھ نرائن کی وحشت میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔اب اسے قابو میں رکھنا بھی محال ہوگیا تھا۔ بوڑھے باپ نے اسے پاگل خانے میں بھجوا دیا لیکن وہاں بھی اس کے دکھوں کا مداوانہ ہو سکا۔ ایک صبح ملازم ناشتہ لے کر نرائن کے کمرے میں گیا تو کمرہ خالی پڑا تھا۔ کسی شخص نے رات کو اسے وہاں سے نکلتے نہ دیکھا تھا۔ چار دن بعد مین روڈ سے پاناپتی کو جانے والی پگڈنڈی کے کنارے فضا میں گدھ منڈلاتے دیکھے گئے۔

بائرا نے جنگل میں غیر معمولی حرکت دیکھی تو اس کے کان کھڑے ہو گئے۔وہ قریب ہی اپنے مویشی چرارہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ گدھوں نے کسی لاش کا سراغ لگا لیا ہے۔میں بتا چکا ہوں کہ بائرا شکار کے گوشت کا رسیا ہے۔وہ اس مقام کی طرف بڑھا جہاں گدھ منڈلارہے تھے مگر لاش کے قریب پہنچا تو ٹھٹک کررہ گیا۔

یہ کسی جانور کا پچا کھچاڈھانچہ نہ تھا بلکہ ایک صحیح سالم انسانی لاش تھی۔سیٹھ نرائن کی بے نور آنکھیں خلا میں جمی ہوئی تھیں۔اس کی گردن پر شیر کے دانتوں کے نشان تھے مگر زمین پر شیر کے پنجوں کے نشان کہیں نظر نہ آئے۔

آج تک یہ اسرار نہیں کھلا کہ سیٹھ نرائن پاگل خانے کے مقتل کمرے سے نکل کر اس جنگل تک کیسے پہنچا، پھر اس پر جس شیر نے حملہ کیا، اس نے اسے کھایا کیوں نہیں؟

پاناپتی کے چرواہے اور پجاری اس راز کو سمجھتے ہیں۔انہیں کیا را کی پھٹکار یاد ہے۔اسی پھٹکار نے سیٹھ کے خاندان کا بیڑا غرق کر دیا۔ تمام مجرم کیفرکردار کو پہنچ گئے تھے مگر کس طرح! کس کے ہاتھوں!عقل ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے۔

ShareSendTweetShare

Related Posts

عبدالقدیر خان
خبریں

عبدالقدیر خان

11/10/2021
اب اگر میں کہوں قصور ٹیچرکا تھا تب بھی میں مجرم
کہانیاں

اب اگر میں کہوں قصور ٹیچرکا تھا تب بھی میں مجرم

12/03/2021
چھوٹے تم بہادر ھو بس کبھی کمزور مت پڑنا
کہانیاں

چھوٹے تم بہادر ھو بس کبھی کمزور مت پڑنا

30/01/2021
شیخ الحدیث والتفسیر علامہ حافظ خادم حسین رضوی
کہانیاں

شیخ الحدیث والتفسیر علامہ حافظ خادم حسین رضوی

22/11/2020
دنیا میں تیرے کچھ نیک بندے بھی ہیں جو ھم خواجہ سرا سے بھی رحم اور تہذیب سے پیش آتے ھیں۔
کہانیاں

دنیا میں تیرے کچھ نیک بندے بھی ہیں جو ھم خواجہ سرا سے بھی رحم اور تہذیب سے پیش آتے ھیں۔

11/08/2020
ہمیں صحافی ہونے پر فخر ہے کرونا کا خوف ہو یا گولیوں کی ترتراہٹ آندھی ہو یا طوفان ہمارا قلم ہمارا کیمرا آپکے حقوق کے لیے ریڈی رہتا ہے
کہانیاں

رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ

26/04/2020

تازہ ترین

ملے بنا ہی بچھڑنے کے ڈر سے لوٹ آئے

بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی

26/12/2023
تصویرِ میکدہ میری غزلوں میں دیکھئیے

یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں

04/12/2023
ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں

تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب

04/12/2023
ملے بنا ہی بچھڑنے کے ڈر سے لوٹ آئے

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

03/12/2023
ملے بنا ہی بچھڑنے کے ڈر سے لوٹ آئے

گر انکا تخت و تاج الٹا نہیں سکتے

02/12/2023

نماز کے اوقات

  • صفحہ اول
  • Live Tv
  • Chat Room
  • شاعری
  • ہماری ٹیم
  • مزید
Whatsup only : +39-3294994663
About Us | Privacy Policy

© 2007 Mast Mast Fm ( Umar Avani )

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • Live Tv
  • Chat Room
  • شاعری
  • ہماری ٹیم
  • مزید
    • ویڈیو آرکائیو
    • غربت کا حصہ
    • کہانیاں

© 2007 Mast Mast Fm ( Umar Avani )

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In