­
آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر63 – MAST MAST FM
8 °c
Islamabad
7 ° ہفتہ
8 ° اتوار
10 ° پیر
10 ° منگل
جمعرات, مئی 22, 2025
  • Login
  • صفحہ اول
  • Live Tv
  • Chat Room
  • شاعری
  • ہماری ٹیم
  • مزید
    • ویڈیو آرکائیو
    • غربت کا حصہ
    • کہانیاں
No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • Live Tv
  • Chat Room
  • شاعری
  • ہماری ٹیم
  • مزید
    • ویڈیو آرکائیو
    • غربت کا حصہ
    • کہانیاں
No Result
View All Result
No Result
View All Result
ہوم کہانیاں
درندوں کے شکاری کی سرگزشت…قسط نمبر 54

آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر63

آدم خوروں کے شکاری کی جنگلی زندگی کی داستان.. قسط نمبر63

15/06/2019
0 0
0
شئیرز
31
ویوز
Share on FacebookShare on Twitter

تیندوالازمی طور پر مہابیر کی آمد کے بعد ہی سار میں داخل ہوا تھا۔ پھر میں سار کے اندرونی دروازے سے دالا ن میں آیا۔ وہاں پیروں کے ایک سے زیادہ نشانات موجود تھے۔

آگے بڑھا تو بائیں ہاتھ بھوسے والے کمرے پر نظر پڑی۔ اس کا دروازہ جیسا کہ بتایا گیا ہمیشہ کھلا رہتا تھا۔ وہاں بھی گوبر میں بھرے ہوئے انسانی قدموں کے نشانات جاتے اور آتے دکھائی دیے۔وہ ایک ہی آدمی کے نشانات تھے اور اس آدمی کے جس کے نشانات تیندوے کے پنجے کے نیچے دب گئے تھے۔

مہابیر سار سے گزر کر،بھوسے والے کمرے میں آیا اور دوبارہ سار میں داخل ہوا اور اسی وقت تیندوے نے اس پر حملہ کیا۔کشمکش کے رہے سہے آثار بھی واضح کررہے تھے کہ وہ آسانی سے تیندوے کے قابو نہیں آیا مگر نا معلوم وجوہ سے اس نے شور بالکل نہ مچایا۔ میں اس پہلو پر غور کرتا رہا اور پھر میری نگاہیں شانتی پر مرکوز ہو گئیں۔

دھنی رام کی بکھری گاؤں کے سرے پر واقع تھی۔ محراب دار بیرونی دالان کے بیچوں بیچ صدر دروازہ تھا، سیدھا صحن تک جاتا۔ صحن کے دونوں جانب مقابل رخ پر دالان اور ان کی پشت پر تین تین بڑے بڑے کمرے تھے۔ تیسری چہار دیواری کے ساتھ دالان اور رسوائی تھی۔وہیں گھڑونجی کے پاس ایک ستون میں بندھی ہوئی متھانی اور مہی کاٹین رکھا تھا۔صحن کے بیچوں بیچ چبوترے پر تلسی کے پودے کے سائے میں تین چار گول گول پتھروں کے دیوی دیوتا ایستادہ تھی۔ چوتھی چہار دیواری کی بیرونی جانب مویشیوں کی لمبی سی سارتھی جس کا اندرونی دروازہ دالان میں کھلتا جس کے برابر بھوسے کا کمرہ، پھر غلے کا۔۔۔اور آخر میں وہ کمرہ جو شانتی کے لیے مخصوص تھا۔ صحن کی دوسری جانب کے کمرے دھنی رام، اس کی بیوی اور بہو کے تصرف میں رہتے۔

میرے قیام کے لیے غلے والا کمرہ صاف کر دیا گیا۔ موسلادھار بارش کے باعث اس روز باہر نکلنے کا تو کوئی امکان نہ تھا،اس لیے چار پائی پر لیٹا غور سے شانتی کی مصروفیات کا جائزہ لیتا رہا۔ وہ مشین کی طرح مسلسل کام میں لگی ہوئی تھی۔برتن مانجھ کر اب آٹا پیس رہی تھی مگر اس کے باوجود ماں اوربڑی بھاوج کی ڈانٹ ڈپٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔وہ اسے بات بے بات جھڑکتیں اور برا بھلا کہتیں۔منی رام میرے پاس بیٹھا الگ احکام صادر کرتا رہا:’’شانتی دیدی، چائے لاؤ،شانتی دیدی، یہا جھاڑودے دو۔۔۔دودھ گرم ہوا کہ نہیں؟ بھینسوں کو بھوسہ ڈال دیا۔‘‘وغیرہ۔

شانتی کی عمر اٹھارہ بیس سال ہو گی۔ منی رام کی زبانی معلوم ہوا، وہ آٹھ دس برس سے بیوہ ہے۔ وداع ہونے سے پہلے ہی بیوہ ہو گئی۔ ہندو دھرم میں بیوہ عورت شادی تو نہیں کر سکتی، اس لیے وہ بدنصیب دن رات سب کی خدمت کرتی اور اپنی جوانی کو خاک میں ملائے جھڑکیوں پر جھڑکیاں کھا رہی تھی۔ اس کی کربناک اور سوگوار زندگی دیکھ کر مجھ بہت دکھ ہوا۔ اس بدنصیب کی کوئی مدد نہ کر سکتا تھا مگر میں نے مصمم ارادہ کر لیا کہ اس کا راز افشانہ کروں گا۔میں چاہتا تھا وہ تنہائی میں مل جائے تو اسے اطمینان دلادوں۔وہ تفتیش کے دوران میں میرے چہرے پر تشویش کے آثار دیکھ کر سخت گھبرائی ہوئی سی تھی۔افسوس تفصیلی گفتگو کا موقع نہ ملا اور میری ہمدردی اس کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی۔

منی رام کی چار پائی میرے ہی کمرے میں تھی۔رات کھانے کے بعد وہ کسی کام سے ماں کے کمرے میں چلا گیا اور اس کی غیر موجودگی میں شانتی گھونگھٹ نکالے میرے لیے دودھ لے آئی۔موقع غنیمت جانتے ہوئے میں نے کہا:

’’شانتی،مجھے تم سے پوری ہمدردی ہے۔تم بالکل فکر مت کرو۔ میں تمہارا مہابیر والا راز کسی کو نہ بتاؤں گا۔‘‘مجھے اندازہ ہوچکا تھا کہ اس رات جب تیندوے نے نوجوان کو ہلاک کیاشانتی اور مہابیر دونوں اکٹھے تھے۔یہی وجہ تھی کیرا سوال سن کر وہ چونک سی پڑی۔دودھ کا گلاس اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا۔اس نے اپنی بوجھل پلکیں اٹھا کر میری طرف دیکھا اور آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔پھر اپنے ہاتھ جوڑے اور کچھ کہنا چاہتی تھی کہ منی رام واپس آگیا۔ گرا ہوا دودھ دیکھ کر وہ اس پر برس پڑا:

’’ دودھ کیسے گر گؤ؟دیکھ کے کام نہیں کرے۔ ۔‘‘

شانتی نے کوئی جواب نہ دیا۔ایک نگاہ منی رام پر ڈالی اور پھر بے بسی سے میری جانب دیکھنے لگی۔

’’منی رام، بہن پر کیوں بگڑ رہا ہے،گلاس تو میرے ہاتھ سے گرا ہے۔‘‘

میری بات پر اس کا غصہ کچھ ٹھنڈا ہوا، پھر بھی اس نے تیوری چڑھا کر کہا:

’’اب کھڑی کا کررہی ہے۔بوری لا کے زمین پونچھ اور دودھ کا دوسرا گلاس لا کے دے۔‘‘

’’نہیں،مجھے دودھ کی ضرورت نہیں۔‘‘میں نے قدرے تر شروئی سے کہا:’’منی رام، تم تو پڑھے لکھے ہو۔کوئی بڑی بہن سے اس طرح بات کرتا ہے۔‘‘

شانتی جا چکی تھی اور منی رام کہہ رہا تھا:

’’آپ نہیں جانتے، یہ ایسا ہی کرتی ہے۔‘‘

میں چپ رہا اور بدنصیب شانتی کی سوگوار زندگی کے تصور میں ڈوب گیا۔ وہ آئی، خاموشی سے زمین صاف کی۔ ہاتھ دھو کر گلاس میں دودھ لائی ۔مجھے دیتے ہوئے نظریں اٹھائیں تو میں نے آنکھوں میں ایک پراسرار عزم کی جھلک دیکھی۔ ان کی اداسی اور گہری ہو چکی تھی اور حسرت ویاس کے ساتھ ان میں نگاہ واپسیں کے نشتر بھی تھے جو کسی مرنے والے کی وداعی نگاہ میں ہوتے ہیں۔

’’شانتی بائی۔۔۔‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا مگر وہ جا چکی تھی۔

’’اری بہری ہے کا؟ سنے کا ہے نائیں۔‘‘منی رام بولا۔

’’نہیں،جانے دو، مجھے کچھ نہیں کہنا۔‘‘

دوسرے دن علی الصبح ابھی خاصا اندھیرا تھا، وہ گھڑے اور رسی لے کر پانی بھرنے گئی اور کچھ دیر بعد جب دوسری پنہارنیں بھی وہاں پہنچیں تو شور مچا کہ شانتی کنوئیں میں گر کر مر گئی۔رسی اور گھڑا بھی اس کنویں سے برآمد ہوئے۔بظاہریہ اتفاقی حادثہ تھا مگر میں جانتا تھا یہ اتفاق کیوں ہوا۔گھروالوں کے سوا سارا گاؤں شانتی سے محبت کرتا اور سب کو دکھ تھا لیکن مجھے رنج بھی تھا اور خوشی بھی۔ ظالم سماج کی یہ ستم ظریفی دیکھ کر مجھے ہنسی آگئی کہ سب سے زیادہ غم کا اظہار شانتی کے گھر والے ہی کررہے تھے۔

دو دن بعد بارش رکی اور میں رائفل سنبھال کر تیندوے کی ٹوہ میں جنگل کی طرف نکل کھڑا ہوا۔منی رام نے میرے ساتھ چلنے پر اصرار کیا۔ میری سفارش پر اس کے باپ نے اجازت دے دی۔ وہ بارہ بور کی دو نالی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی مگر اسے بندوق چلانے کا شوق بہت تھا۔ میں نے اس کی ہمت بڑھائی اور وعدہ کیا اگر موقع ملا تو تیندوے پر پہلے اسی کی گولی چلواوؤں گا۔ہم کیچڑ میں لت

پت دیر تک جنگل میں مارے مارے پھرتے رہے۔تیندوے کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ تیز بارش نے اس کے پنجوں کے نشان مٹا دیے تھے۔(جاری ہے )

ShareSendTweetShare

Related Posts

عبدالقدیر خان
خبریں

عبدالقدیر خان

11/10/2021
اب اگر میں کہوں قصور ٹیچرکا تھا تب بھی میں مجرم
کہانیاں

اب اگر میں کہوں قصور ٹیچرکا تھا تب بھی میں مجرم

12/03/2021
چھوٹے تم بہادر ھو بس کبھی کمزور مت پڑنا
کہانیاں

چھوٹے تم بہادر ھو بس کبھی کمزور مت پڑنا

30/01/2021
شیخ الحدیث والتفسیر علامہ حافظ خادم حسین رضوی
کہانیاں

شیخ الحدیث والتفسیر علامہ حافظ خادم حسین رضوی

22/11/2020
دنیا میں تیرے کچھ نیک بندے بھی ہیں جو ھم خواجہ سرا سے بھی رحم اور تہذیب سے پیش آتے ھیں۔
کہانیاں

دنیا میں تیرے کچھ نیک بندے بھی ہیں جو ھم خواجہ سرا سے بھی رحم اور تہذیب سے پیش آتے ھیں۔

11/08/2020
ہمیں صحافی ہونے پر فخر ہے کرونا کا خوف ہو یا گولیوں کی ترتراہٹ آندھی ہو یا طوفان ہمارا قلم ہمارا کیمرا آپکے حقوق کے لیے ریڈی رہتا ہے
کہانیاں

رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ

26/04/2020

تازہ ترین

ملے بنا ہی بچھڑنے کے ڈر سے لوٹ آئے

بولے کوئی ہنس کر تو چھڑک دیتے ہیں جاں بھی

26/12/2023
تصویرِ میکدہ میری غزلوں میں دیکھئیے

یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں

04/12/2023
ٹھیک ہے میں نہیں پسند اُنہیں

تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب

04/12/2023
ملے بنا ہی بچھڑنے کے ڈر سے لوٹ آئے

صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

03/12/2023
ملے بنا ہی بچھڑنے کے ڈر سے لوٹ آئے

گر انکا تخت و تاج الٹا نہیں سکتے

02/12/2023

نماز کے اوقات

  • صفحہ اول
  • Live Tv
  • Chat Room
  • شاعری
  • ہماری ٹیم
  • مزید
Whatsup only : +39-3294994663
About Us | Privacy Policy

© 2007 Mast Mast Fm ( Umar Avani )

No Result
View All Result
  • صفحہ اول
  • Live Tv
  • Chat Room
  • شاعری
  • ہماری ٹیم
  • مزید
    • ویڈیو آرکائیو
    • غربت کا حصہ
    • کہانیاں

© 2007 Mast Mast Fm ( Umar Avani )

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In