اسلام آباد(سچ نیوز)متحدہ مجلس عمل کے سربراہ اور اپوزیشن کے صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن نے کہاکہمیں صدارتی امید وار کے طور پر پیچھے نہیں ہٹ سکتا کیونکہ مجھ پر اپوزیشن جماعتوں نے اعتماد کیا ہے ، مسلم لیگ ن کی جانب سے اعتزاز احسن کے نام پر اعتراض کی وجہ ان کے ن لیگ مخالف بیانات ہیں، جشن آزادی نہ منانے سے متعلق میرے الفاظ احتجاج کے الفاظ تھے، ہم 70 برسوں میں علامہ اقبال اور قائداعظم کے عظیم الشان مقاصدحاصل نہ کر سکے،منصب صدارت اپنی حدود اور اپنے اختیارات رکھتا ہے،اے پی سی میں پیپلزپارٹی نے کہاوزیراعظم مسلم لیگ ن سے ہوناچاہیے لیکن انتخابات میں انہوں نے ووٹ دینے سے انکار کر دیا،اب پیپلز پارٹی وزارت عظمیٰ کے بعد صدارتی انتخاب میں بھی اختلاف پیدا کر رہی ہے۔
نجی ٹی وی چینل” جیو نیوز“ کے پروگرام” جرگہ “ میں گفتگو کرتے ہوئے صدارتی امیدوار مولانا فضل الرحمن نے کہاکہپاکستان میں جمہوری نظا م موجود ہے، صدر مملکت اور ایوان صدر جمہوری نظام کا حصہ ہیں، ہم اسی جمہوری نظام میں جدوجہد کرنے والے لوگ ہیں،انتخابات میں حصہ لینا ہمارا جمہوری حق ہے، اس سے پہلے میں بھی ایم ایم اے کی جانب سے وزیراعظم کا امیدوار رہ چکا ہوں، اپوزیشن نے مجھے اس عہدے کے لئے نامزد کیا ہے، پاکستان میں انتظامی معاملات پارلیمنٹ اور وزیراعظم کے پاس ہیں لیکن صدر مملکت کو تمام امور سے آگاہ کیا جاتا ہے،میرے ایوان صدر جانے سے ایم ایم اے غیر فعال نہیں ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور آئین کے مطابق اسلام پاکستان کا مملکتی اور ریاستی مذہب ہو گا ، آئین کے مطابق ملک میں قانون سازی اسلام کے مطابق ہو گی،صدر مملکت وفاق کا مظہر اور آئین کا محافظ سمجھا جاتا ہے ،جس جماعت کے طرز عمل سے مذہب کی کوئی چیز آشکارا نہیں ہوتی اور مذہب کے معاملے پر کوئی ترجیح سامنے نہیں آ رہی ہے، ایسی صورتحال میں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا ۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ میں نے کہا تھا کہ وزیراعظم پیپلزپارٹی سے ،سپیکر مسلم لیگ ن اور ڈپٹی سپیکر متحدہ مجلس عمل سے ہونا چاہئے، اس بات پر پیپلزپارٹی کے علاوہ سب نے اتفاق کیا جبکہ پیپلزپارٹی نے کہا کہ وزیراعظم مسلم لیگ ن سے ہونا چاہئے جبکہ دیگر جماعتوں نے کہا کہ پھرسپیکر پیپلزپارٹی سے ہو گا ،اس فیصلے کے بعد ہم سب اس بات کے پابند تھے کیونکہ پیپلزپارٹی کے کہنے پر وزیراعظم کے امیدوار کے لئے نام مسلم لیگ ن سے لیا گیا۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے سپیکر کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کو ووٹ دیا تھا ،اگر وزارت عظمیٰ کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کے 50 ووٹ اپوزیشن کو پڑتے تو اپوزیشن حکومت بنا لیتی اور عمران خان حکومت نہ بنا سکتے ،یہی صورتحال پنجاب میں بھی ہوتی کیونکہ مسلم لیگ ن پنجاب میں بھی حکومت بنا سکتی تھی لیکن پیپلزپارٹی نے اے پی سی کے فیصلے کے خلاف جاتے ہوئے ان کا ساتھ نہیں دیا، یہ وطیرہ آج کانہیں ہے، 2002 کے انتخاب میں عمران خان اور دیگر جماعتیں میرے ساتھ تھیں مگر عین وقت پر پیپلزپارٹی کے 22 ارکان فارورڈ بلاک بنا کر ق لیگ میں چلے گئے اور میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بن گئے۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے اعتزاز احسن کے بطوروزیراعظم امیدوار کی مخالفت کی، اس کی وجہ اعتزاز احسن کے ن لیگ کے خلاف بیان تھے ،مری میں شہباز شریف کی دعوت پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی گئی جس میں مسلم لیگ ن مصر تھی کہ اعتزاز احسن صدارتی امید وار نہیں ہوں گے بلکہ پیپلزپارٹی صدارتی امید وار کے لئے 3 اور نام دے، اس پر پی پی پی والے مان گئے تھے لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ ہمارا زرداری صاحب سے رابطہ نہیں ہوا لہذا ہم بعد میں جواب دیں گے لیکن بعد ازاں پیپلزپارٹی اعتزاز احسن کے نام پر بضدہو گئی اور اس کے بعد بھی انہوں نے اعتزاز احسن کی جگہ کسی کا نام لینا بھی گوارا نہیں کیا ،اے پی سی کے اعلامیے میں لکھا گیا تھا کہ صدارتی امیدوار کے لئے پینل کا نام دیا جائے گا ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ شہباز شریف نے صدارت کے لئے میرا نام دیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ ہو سکتا ہے کہ میر ے نام پر اتفاق رائے ہو جائے ،مجھے صدارتی امیدوار کے نام کے لئے پل کا کردار اد اکرنے کا کہا گیا، پیپلزپارٹی سے تمام جماعتوں کو مثبت رویے کی امید ہے، میں صدارتی امید وار سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا کیونکہ مجھ پر تمام اپوزیشن جماعتوں کو اعتماد ہے ، پیپلزپارٹی نے ایسا شخص دولہا بنایا ہے جس کو نہ تو اسی کے گھر والوں نے قبول کیا ہے اور نہ ہی سسرال والوں نے تو پھر کیوں نہ ایسے دولہا پر اتفاق کر لیا جائے جسے سب مان رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اعتزاز احسن کو اپوزیشن نے مسترد کر دیا ہے، مسئلہ زاتی پسند یا نا پسند کا نہیں ہے، اعتزاز احسن میرے ذاتی دوست ہیں، انہیں ضرورت ہو تو وہ میرے کردار کی تعریف کرتے ہیں اور ضرورت نہ ہو وہ تو مجھ پر کیچڑ اچھالنا شروع کر دیتے ہیں،ہم نے پارلیمنٹ میں ایک زمانہ اکھٹے گزارا ہے، میں جب اسلام آبادآیا تو سب سے پہلے زرداری صاحب کے کھانے پرگیا، آصف زرداری کا ن لیگ سے شکوہ ہے کہ نواز شریف نے آصف زرداری اوران کی بہن کے خلا ف مقدمہ بنایا ، شہباز شریف نوا ز شریف کے بھائی ہیں،ہم کیسے ان پر اعتماد کر لیں؟ لہذا ہم ان کو ووٹ نہیں د یں گے ۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ کسی اعلیٰ منصب تک پہنچنا منزل نہیں بلکہ منزل تک پہنچنے کی گزر گاہ ہے، 70 سالوں میں آزادی کے عظیم الشان مقاصد جن کا ذکر قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے کیا ہم آج بھی حاصل نہیں کر سکے ،ہماری معیشت، سیاست اور جمہوریت بین الاقوامی دباؤ میں ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمارا دفاع بھی بین الاقوامی دباؤ میں ہے، بین الاقوامی ادارے قانون صادر کرتے ہیں اور یہ ہمارے ملک میں نافذاور موثر ہوتے ہیں اورہمارااپنا قانون غیر موثر ہوجاتاہے لہذا ایسی صورتحال میں ہمیں آزادی کے عظیم الشان مقاصد اور آخری منزل تک پہنچنے کے لئے جدو جہد کے سلسلے کو زندہ رکھنا ہے، میں نے جشن آزادی نہ منانے والی بات اسی پیرائے میں کہی تھی ۔انہوں نے کہا کہ دھاندلی سے قوم کا نقصان ہو اہے تو کیا قوم کہ سکتی ہے کہ ہم آزاد ہیں ؟ میرے الفاظ احتجاج کے الفاظ تھے انہوں نے کہا کہ اگر پیپلزپارٹی اپنا امیدوار دستبر دار کرے تو ہماری کامیابی یقینی ہے ا س معاملے پر کوششیں جاری ہیں آصف زرداری نے کہا کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں گے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اعتزازکی دستبرداری کا فیصلہ ایک جماعت نے کرنا ہے جبکہ میری دستبرداری کا فیصلہ 10جماعتوں کوکرنا ہے،طنزیہ باتیں نہ کی جائیں کہ رشتہ لے کرگئے دولھا بن کر آگئے ، اعتزاز احسن ایسے دولھا ہیں جسے نہ گھر والے مان رہے ہیں نہ سسرال والے ، تو پھر کیوں نہ ایسے دولھا پر اتفاق کر لیا جائے جسے سب مان رہے ہیں۔یاد رہے کہ 4 سمتبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں پی ٹی آئی کی جانب سے ڈاکٹر عارف علوی امیدوار ہیں جب کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے اعتزار احسن کو نامزد کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کو صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے جب کہ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔