غرض دو بندوق والے اور چھ کلہاڑی سے مسلح جوان آدمی تیار ہو گئے۔باقی آدمیوں کو میں نے بوربچے کی چھلانگ اور دوڑ کے لیے میدان چھوڑ کر دو طرف جمع کر دیا۔ میں خود دخت کے نیچے ہی کھڑا رہا تاکہ بوربچے کے اوپر سے اترتے اور بھاگتے وقت فائر کر سکوں۔ان سب تیاریوں کے بعد درخت پر ایک ایک کرکے ان لوگوں نے چڑھنا شروع کیا۔ میں نیچے سے بتاتا رہا کہ اب اس شاخ پر جاؤ، اب اس شاخ پر آؤ۔یہ ’’رضا کار‘‘مشکل سے بارہ چودہ فٹ اوپر چڑھے ہوں گے کہ غرا نے کی آواز آئی۔درخت کے بلند حصے سے نہیں۔بلکہ برگد کی ایک جٹا کے اوپر سے جو غالباً پندرہ فٹ بلندی سے نکل کر زمین سے تین فٹ اوپر لٹک رہی تھی۔اس جٹاکے اوپر کا حصہ جو درخت سے متصل تھا، خوب گنجان تھا اور وہاں یہ چور خدا معلوم کب سے چھپا بیٹھا تھا، جگہ تو معلوم ہو گئی لیکن چور اب بھی دکھائی نہ دیا۔غرا نے کی آواز سن کر تمام گاؤں والوں نے بڑا غل مچایا۔درخت کے بندوقچیوں نے اسی طرف بندوقیں تان لیں مگر آگے کوئی نہ بڑھا۔یہ سخت انتشار اور ا نتظار کا وقت تھا۔ میری سمجھ سے یہ بات بالاتر تھی کہ مجھے فائر کا موقع کہاں ملے گا۔اس جٹا سے میں چار گز پر کھڑا ہو گیا۔سامنے سے سب کو ہٹا دیا اور بندوق والوں سے کہا جہاں سے غرا نے کی آواز آئی ہے،اسی طرف اندازاً پتوں اور شاخوں پر فائر کرو۔فائر میں یہ خوف نہ تھا کہ چھرے زمین پر گریں گے کیونکہ فائر کرنے والے اس مقام سے نیچے تھے۔فائر ہوتے ہی درندے نے اس جٹا کے جھنڈ سے اوپر کی طرف چھلانگ لگائی اور ہم نے بس اسے چھلانگ لگاتے دیکھا، میں نے فائر کے لیے بندوق سیدھی کی مگر وہ پلک جھپکتے ہی غائب ہو گیا۔ اب مجھے یقین ہو چلا کہ یہ نیچے کودے گا۔ دونوں بندوقچی بندوقیں بھرنے کے بعد پھر اس طرف بڑھے،جدھر بوربچہ جاتا نظر آیا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ اب کی بار نشانہ لے کر فائر کریں گے۔اس امید پر یہ لوگ اوپر کی طرف دیکھ رہے تھے اور ہم اس خیال میں تھے کہ بوربچہ پھر جگہ بدلتے ہوئے نظر آئے گا۔ یکایک پھر فوں فوں کی آواز آئی۔ اس آواز کے ساتھ ہی وہ موذی زمین پر دکھائی دیا۔ کسی نے اس کو اترتے دیکھا نہ کوئی یہ معلوم کر سکا کہ وہ کہاں سے کودنہ میں نے اسے زمین پر اپنے سے کوئی آٹھ نوفٹ کے فاصلے پر دیکھا۔یہ بھی یاد نہیں کہ اس کا منہ کس طرف تھا۔ فطرتاً وہ اس کھلے ہوئے حصے کی طرف بھاگا جہاں آدمی نہ تھے، صرف گھاس تھی۔میں نے پہلے ہی اس حصے کو خالی چھوڑ رکھا تھا۔بوربچہ میرے سامنے سے چھلانگ لگا کر سیدھا جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ اس نے دو لمبی لمبی چھلانگیں لگائیں۔میں نشانہ ہی نہ لے سکا۔ تیسری چھلانگ کے بعد جب اس کے پاؤں زمین لگے تو مجھ سے کوئی 35گز دور ہو گا۔ میں نے فائر کیا۔ گولی خالی گئی اور ٹھیک اس کے اگلے ہاتھ کی دہنی جانب غالباً دو انچ کے فاصلے پر زمین پر جا پڑی۔میں نے گرد اڑتے دیکھی اور فوراً نشانہ ذرا بائیں کو لے کر دوسرا فائر کیا۔ بوربچے کی کمر سے دم تک ایک سیاہ پٹی ہوتی ہے اور کولہے کے جوڑ پر جو دو ہڈیاں چوپائیوں کی کمر کے آخری حصے میں اٹھی ہوئی ہوتی ہیں،ان ہڈیوں سے سات انچ آگے سیاہ پٹی کے بیچوں بیچ گولی لگی۔ چونکہ بوربچہ تقریباً میرے لیول پر تھا، اس لیے گولی نیچے کی طرف نہیں گئی، بلکہ ہڈی توڑ کر سیدھی چلی گئی اور دونوں شانوں کے بیچ میں سخت پٹھوں اور نرم ہڈیوں میں پیوست ہو گئی۔میں اکثر نرم سیسے کی گولی ا ستعمال کرتا ہوں۔شیر جیسے درندے کی ہڈیوں میں یہ گولی سوراخ کر دیتی ہے۔پاش پاش نہیں ہوتی، صرف پھیل جاتی ہے اور اسی وجہ سے ایکسپرس کے شاک کو تمام بندوقوں پر فوقیت حاصل ہے۔اس موقع پر یہ نکتہ بھی واضح کر دوں کہ زیادہ مضبوط،دبیز اور سخت ہڈیوں پر یہ گولی بے کار ہے جیسے بھینسا،گینڈا یا ہاتھی کی ہڈیاں ہوتی ہیں۔نرمی کی وجہ سے دل تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ہاں تو میں عرض کررہا تھا کہ گولی دل اور پھیپھڑوں کو بچاتی ہوئی گزری۔ریڑھ کی ہڈی کو سخت صدمہ پہنچنے کی وجہ سے بوربچہ وہیں گر گیا جیسے کوئی بیٹھ جاتا ہے لیکن سر اٹھائے ہوئے برابر دہاڑتا رہا۔ادھر گاؤں والوں نے بھی اس قدر شور مچایا کہ امان الحفیظ۔جب تک بوربچہ ہاؤں ہاؤں کرتارہا، یہ بھی اپنی زبان میں اسے گالیاں دیتے رہے۔پھر اس پر حالت نزع طاری ہوئی۔بل کھایا، پیر اوپر ہو گئے۔مرتے وقت حلق سے مخصوص آواز نکالی اور ٹھنڈا ہو گیا۔مجھے اس موذی کے ہلاک ہونے سے حقیقی مسرت ہوتی۔بالخصوص اس لیے کہ 136انسانی بچے ہڑپ کر چکا تھا۔ اردگرد دیہاتوں کے بے شمار کاشت کار محض اس کی وجہ سے جلا وطن ہونے کے لیے آمادہ تھے۔ دوسرے یہ کہ میرے افسروں نے دو ایک مرتبہ طنزیہ کہا تھا کہ آپ بے مضرت جانوروں کے بجائے اس موذی ظالم کے ظلم کی طرف توجہ کیوں نہیں فرماتے۔
بوربچہ اگر آدم خور ہو جائے تو وہ شیر کے مقابلے میں بہت زیادہ انسانی جانیں تلف کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔شیر کتنا ہی بھوکا اور پرانا مشاق آدم خور ہو، گھروں میں گھس کر یا سر شام گاؤں میں داخل ہو کر انسان کو نہیں لے جاتا۔وہ دلیر اور غیرت مند درندہ ہے، انہی خوبیوں کی وجہ سے لوگ اسکو پسند بھی کرتے اور شیر کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔
بوربچہ (چیتے کی ایک قسم)اکثر گھروں کے دروازے اور چھپروں کی چھتیں پھاڑ کر بچوں کو اٹھا لے جاتا ہے۔جس آدم خور بور بچے کو میں نے مارا، اس کا قد6فٹ نو انچ تھا۔ رنگ اچھا زرد اور سیاہی مائل، کمر کی لکیر بھی خاصی سیاہ تھی۔ جسم خوب فربہ، عمر بھی دس بارہ سال سے زیادہ نہ تھی۔ میں نے پانچ چھ بارش یر کے بچے پالے ہیں۔غالباً میں اس کا ذکر بھی کر چکا ہوں۔ایک بار نہایت مردم کش اور راستہ روک دینے والی شیرنی کو ہلاک کیا تھا جس کے ساتھ چھ بچے تھے۔ میں نے اس کے پانچ بچے گرفتار کیے۔ ایک بچہ جنگل میں چھپ گیا اور کسی طرح ہاتھ نہ آیا۔ جو پانچ بچے مجھے ملے، ان میں سے ایک پہلی ہی رات کو مر گیا۔ باقی چار کو بڑی محنت اور محبت سے پالا۔ سات آٹھ مہینے میرے ساتھ رہے۔میں دورے پر تھا۔ یہ چاروں ایک پنجرے میں رات کے وقت سفر کرتے۔عام طور پر گرمیوں کے موسم میں کیمپ، درختوں کے سائے میں لگایا جاتا۔ایک دو درخت کیمپ کے قریب ضرور ہوتے۔یہ چاروں بچے پنجرہ کھلتے ہی درخت پر چڑھ جاتے۔دوپہر کی گرم ہوا سے بچانے کے لیے انہیں دودھ کا برتن دکھا کر درخت سے اتارا جاتا۔ پھر میرے خیمے یا سمر ہاؤس میں ٹھنڈی ریت پر بٹھا دیے جاتے۔اگر انہیں موقع مل جاتا تو پھر چپکے سے نکل کر درخت پر چڑھ جاتے اور شام تک وہیں شاخوں پر کھیلتے رہتے۔
اس تجربے اور مشاہدے کے بعد میری رائے کا اس عام خیال کے خلاف ہونا فطری امر ہے کہ شیر درخت پر نہیں چڑھ سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شیر درخت پر اس لیے نہیں چڑھتا کہ اس کا وزن درخت کی شاخیں سنبھال نہیں سکتیں۔اگر شیر محنت کرکے درخت کے تنے پر چڑھ بھی جائے تو آگے بڑھنا مشکل ہے۔یہی وجہ ہے کہ شیر اس فضول حرکت کا مرتکب نہیں ہوتا۔اسی بنا پر عام خیال پیدا ہو گیا کہ شیر درخت پر چڑھتا ہی نہیں۔مسٹر برینڈر ایک نامور انگریز شکاری نے خود ایک درخت پر شیر کے پنجوں کے نشان دیکھے تھے۔
(جاری ہے )