اسی طرح بوربچے کی دلیری کا ایک واقعہ اور ہے۔میں سر جان مارشل کمانڈر انچیف سے رات کے آٹھ بجے اپنے خیمے کے سامنے کھڑا باتیں کررہا تھا۔ مولوی عبدالعلی صاحب مہتمم لوکل فنڈ اور دو تحصیلدار صاحبان آٹھ نو قدم پر کھڑے تھے۔میرا کتا میرے قدموں میں بیٹھا تھا۔وہاں روشنی بھی تھی۔کچھ فاصلے پر متعدد کیمپ والے کھانا پکا رہے تھے۔ان تمام رکاوٹوں کے باوجود بوربچہ آن واحد میں کتے کو کمر سے پکڑ کر اٹھا لے گیا۔ خود کمانڈر انچیف صاحب، میں اور تیس چالیس آدمی اسی وقت درندے کے پیچھے دوڑے مگر اس کا کہیں پتا نہ لگا۔
ایک دوسری خوبی اس درندے میں صبر و استقلال کی ہے۔شیر پنجرے یا جال میں پھنستا ہے تو اس قدر غل اور شور مچاتا ہے کہ خدا کی پناہ!اس کی آواز نہایت ہولناک ہوتی ہے۔ہر لمحے یہی دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اب آزاد ہوا، اب آزاد ہوا۔میں نے اعلیٰ حضرت نظام دکن میر محبوب علی خان مرحوم کے کیمپ میں شیر کو جال میں پھنستے دیکھا ہے۔اس نے پانچ منٹ کے اندراندر چیخنے کے علاوہ لوٹ پوٹ اور تڑپ تڑپ کر سات فٹ بلند پتوں،ڈالیوں اور جال کی رسیوں کا اپنے اوپر ڈھیر بنا لیا اور پنجرے کے بارے میں میں نے سنا ہے کہ شیر نے اپنے پنجے،پیشانی اور دانت سلاخوں سے ٹکڑا ٹکڑا کر لہولہان کر ڈالے۔ اس کے برعکس بوربچہ پنجرے میں گرفتار ہونے کے بعد جنبش بھی نہیں کرتا اور رات کے وقت خاموشی کے ساتھ کوشش کرکے پنجرے سے نکل جاتا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اس کوشش میں اس کے دانت اور ناخن اکثر ٹوٹ جاتے ہیں اگر آزاد ہونے میں ناکام رہا تو چپکا پڑ گیا۔ حلق سے آواز تک نہ نکالی۔
ایک شکاری نے مجھ سے بیان کیا کہ ہانکے میں ایک بوربچہ ان کے بہت قریب سے گزرا۔انہوں نے اعشاریہ577کی رائفل سے اس پر فائر کیا۔ گولی پیٹ میں لگی اور آنتیں باہر نکل پڑی لیکن یہ بوربچہ اسی رفتار سے چلتا رہا۔چونکہ آنتیں جھاڑیوں میں الجھتی تھیں اور چلنے میں سخت تکلف ہوتی تھی۔اس لیے درندے نے انہیں دانتوں سے کتر کر پھینک دیا اور چلتا رہا۔
بعض شکاریوں کا خیال ہے کہ بوربچہ شیر کی نسبت زیادہ خوفناک ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس درندے کو چھپنے کے لیے بہت کم جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور چھوٹی جسامت کے سبب اس پر صحیح نشانہ لینا مشکل ہوتا ہے۔شیر میں یہ کمزوری ہے کہ انسان کو دور ہی سے دیکھ کر غراتا اور دھمکاتا ہے جس سے شکاری ہوشیار ہو جاتا ہے۔اس کے برعکس بوربچہ شکاری کے قریب آنے تک خاموش بیٹھا رہتا ہے اور کبھی بظاہر سامنے سے چلے جانے کے بعد پھر پلٹ کر دبے پاؤں آتا اور حملہ کرتا ہے۔شیر کبھی ایسی اوچھی حرکت نہیں کرتا لیکن ان تمام وقتوں کے باوجود شیر کے مقابلے میں بوربچے کا حملہ روکنا بہت آسان ہے۔اگر شکاری قوی الجثہ اور دلیر ہوتو اس درندے سے دست بدست جنگ کر سکتا ہے۔اس سلسلے میں ایک ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہے۔
میں اور میرا ایک انگریز شکاری دوست لنگم پلی کے پہاڑوں میں بندوقیں لیے تیتروں کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔نگہاں سامنے سے ایک بوربچہ دوڑتا ہوا نظر آیا۔میں نے اس پر دو اور انگریز نے ایک فائر کیا۔ بوربچہ اسی رفتار سے کوئی اثر لیے بغیر نکلا چلا گیا۔ہم سمجھے کہ تینوں فائر خالی گئے۔ہم پھر ادھرادھر ٹہلنے لگے۔بوربچے کا خیال بھی نہ رہا۔کامل ایک گھنٹے بعد ہم بڑے بڑے پتھروں کے پاس پہنچے جو اوپر تلے ایک ڈھیر کی صورت جمع تھے۔میں پتھروں کے ایک طرف تھا اور میرے دوست دوسری طرف۔یکایک میرے کان میں بوربچے کے حملے کی آواز آئی۔ میں لپک کر دوسری جانب پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ صاحب بہادر بوربچے کو اپنی بندوق پر سنبھالے ہوئے پیچھے ہٹانے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ موذی ان کا شانہ یا گردن پکڑنے کی فکر میں ہے۔صاحب بہادر بندوق کی نال آڑی کرکے دونوں ہاتھوں سے پکڑے اور پاؤں پھیلائے زور کررہے تھے۔بوربچے کے دونوں پنجے بندوق کی نال پر تھے اور گردن نال سے رکی ہوئی تھی۔یہ صورت حال دیکھ کر میں آگے بڑھا اور بدحواسی میں اپنی بندوق کے کندے سے بوربچے کو دھکا دیا مگر اس نے نال پر سے گردن نہ ہٹائی، صرف میری طرف مڑ کر دیکھا۔ صاحب نے چلا کرکہا:
’’یہ آپ کیا کررہے ہیں؟فائر کیجیے۔‘‘
میں نے دو قدم پیچھے ہٹ کر بندوق کی نال سے اس کے دل کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی۔بندوق میں اگرچہ چار نمبر کے چھرے بھرے تھے مگر بوربچہ وہیں دائیں کروٹ پر گر گیا۔صاحب بہادر کے سینے پر درندے کا ناخن لگا تھا اور دائیں شانے پرایک دانت۔دونوں زخموں سے خون رس رہا تھا۔ اتنے میں ہمارے ملازم وغیرہ اس ہنگامے کی آواز سن کر دوڑتے ہوئے آئے اور صاحب کو اٹھا کر خیمے میں لے گئے۔
ایک اور واقعہ اس درندے کی تیزی اور خونخواری کا عرض کرتا ہوں۔مولوی جان محمد صاحب پولیس کے افسر اعلیٰ اور میں ایک دورے میں ساتھ ساتھ تھے۔کسی گاؤں کے باہر کیمپ تھا۔ کوئی شخص خبر لایا کہ گاؤں کے ایک مکان میں بوربچہ چھپا بیٹھا ہے۔میں اور مولوی جان محمد بندوقیں لے کر پہنچے۔معلوم ہوا کہ مکان قریب قریب ایک لائن میں بنے ہوئے ہیں۔مکانوں کی تین لائنیں ہیں اور دوسری لائن کے چوتھے یا پانچویں مکان میں درندہ موجود ہے۔گاؤں کا کولی بہت دل جلا جوان آدمی تھا۔ اس نے کہا کہ میں چھت کا چھپر درانتی سے کاٹ کر اس میں سوراخ بنا دیتا ہوں۔اس میں جھانک کر بوربچے کو گولی مار دیجیے۔ہم نے کہا’’ٹھیک ہے۔‘‘وہ گیا اور چھپر کی چھت میں کوئی ڈیڑھ فٹ قطر کا سوراخ کر آیا۔ پھر اس نے یہ بے وقوفی کی کہ سوراخ میں سے جھانک کر درندے کو للکار دیا۔درندہ ہولناک آواز کے ساتھ لپکا اور کولی کودھکیل کر پرے پھینکتا ہوا وہاں سے نکلا اور تین چار مکانوں کی چھتوں پر دوڑتا ہوا ایک اور مکان میں کود پڑا۔وہاں صحن میں ایک بڑھیا روٹی پکا رہی تھی۔ وہ اسے دیکھ کر چلائی تو یہ مکان کے اندر گھس گیا۔گاؤں والے دوڑے اور بانس اور درانتی باندھ کر مکان کا دروازہ باہر سے کھینچ کر بند کر دیا۔اس طرح بوربچہ پھر مکان میں قید ہو گیا۔اب پھر اس کے سوا کوئی تدبیر نہ تھی کہ چھت کاٹی جائے لیکن اس کے ساتھ یہ تجویز بھی ہوئی کہ سوراخ کرکے فوراً اس پر کوئی چیز رکھ دی جائے اور جب سب شکاری تیار ہو جائیں تو رسی کے ذریعے سوراخ کا ڈھکنا اٹھا لیا جائے۔بوربچہ نکلے تو سب اس پر فائر کر دیں۔
(جاری ہے )