غربت کا حصہ.. دوسری قسط

غربت کا حصہ.. دوسری قسط

ضرورت ایسے انسان کو کھینچتی ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے ہم سمجھتے ہیں ضرورت صرف غربت کا ہی حصہ ہے لیکن ضرورت ہر انسان کی فطرت کا حصہ ہوتی ہے اس دنیا میں کوئی ایسا انسان نہیں ہوگا جسے کسی ضروری کام نے کسی کے آگے نہ جھکوایا ہو… ہر انسان ایک دوسرے کا محتاج بنا ہوا ہے یقین ما ئیے پیسے والا انسان ہو یا بغیر پیسے والا اللہ اسکو جب کسی کے آگے جھکانا چاہتے ہیں تو ایسی آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں جہاں چوں چرا کی گنجائش نہیں ہوتی بس اسے ضرورت کھنچ کر غریب کے بھی در پر پہنچا دیتی ہے یہی حال شزا کا ہوا اس نے ضرورت کو غربت کا حصہ سمجھا ہوا تھا لیکن یہ تنویر کمال کی امیری کا بھی حصہ تھی آئیے آگے پڑھیے "غربت کا حصہ” دوسرا پارٹ یعنی دوسری قسط.. شاکرہ مفتی عمران 😊

ہاں تو تمہیں منظور ہے..؟

جی صاحب جی غریب کے لیے تو یہ بھی بہت بڑی خوشنصیبی ہے جو میری بیٹی کو آپ اپنے گھر کی بہو بنانے پر تیار ہو گئے ہیں… میں بات کرونگا شزا سے میری بیٹی آپ کے بیٹے کو سنبھال لے گی آپ بلکل بے فکر رہیں… شبیر احمد نے تنویر کمال کو دلاسا دیتے ہوئے اپنے آنسو پوچھ ڈالے…

دراصل تنویر کمال اکثر اس ہوٹل میں کھانا کھانے آتے تھے جہاں شبیر احمد کام کرتا تھا تنویر کمال کا ایک معذور بیٹا تھا جو تقریباً بچیس سال کا ہو گیا تھا لیکن نہ وہ چل سکتا تھا نہ وہ ڈھنگ سے بول سکتا تھا پیدائشی اس میں کچھ ایسے نقص تھے جنکا بہت علاج کروایا گیا لیکن وہ ٹھیک نہیں ہوا تنویر کمال نے پانی کی طرح پیسہ بہایا تھا

ماں تو بچپن میں ہی اسے چھوڑ کر چلی گئی تھی اور اس نے تنویر کمال سے طلاق لے لی تھی اسکا کہنا تھا وہ اپنی زندگی کسی اور کے ساتھ گزارنا چاہتی ہے اور اس معاملے میں اس نے اپنی معذور اولاد کا بھی خیال نہیں کیا اور سب کو چھوڑ کر اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ زندگی گزارنے لگی

لیکن تنویر کمال نے اپنا فرض نبھایا اپنے بیٹے کا ہر طرح سے خیال رکھا دوسری شادی بھی محض اسی لیے نہیں کی کہ سوتیلی ماں ایک معذور بچے کو کبھی نہیں اپنائے گی

یہاں یہ بھی پتہ لگتا ہے ہمیشہ اکثر ہمارے معاشرے میں باپ کو بے حس مانا جاتا ہے لیکن بہت سی جگہ پر باپ، ماں اور باپ دونوں کا فرض بھی نبھاتا نظر آتا ہے کہیں عورت بھی دھوکہ دے جاتی ہے اور مرد وفا کا پیکر بنا زندگی گزار رہا ہوتا ہے

تنویر کمال نے اپنے بیٹے کے لیے گھر میں کئی نوکر رکھے ہوئے تھے لیکن پھر بھی نوکروں پر زیادہ بھروسہ نہیں کیا جا سکتا تھا آخر انہوں نے اپنے بیٹے کی شادی کا سوچا اور اس کے لیے ایسی لڑکی چاہیے تھی جو مخلص ہو کر ان کے بیٹے کا پورا پورا خیال رکھے ایسا نہ ہو دولت کی چمک اسکا دماغ خراب کر دے اور وہ سب سمیٹ کر بھاگ جائے اور انہیں کوئی فائدہ نہ ہو اسی لیے جب کبھی وہ ہوٹل میں شبیر احمد کو کام کرتا دیکھتے تو اسکو اکثر ہاتھ میں کچھ پیسے دبا دیا کرتے اور دعا کے لیے کہتے
شبیر میرے بیٹے کے لیے دعا کیا کرو اللہ اسے جلد ٹھیک کر دے اسے کوئی چاہنے والا مخلص ساتھی مل جائے

شبیر احمد بھی دعا دیے دیتے صاحب جی آپ جیسے لوگوں کو کیا کمی ہے آپکی دعا جلد پوری ہو جائے گی ان شاللہء

انہیں پتہ تھا شبیر احمد کی تین بیٹیاں ہیں اور اس دن گاڑی میں بڑی بیٹی کو بھی دیکھ لیا

جس وقت شبیر احمد کو کرنٹ لگا تھا تنویر کمال ہوٹل میں داخل ہی ہوئے تھے جب شور مچ گیا تار ننگے تھے اور شبیر احمد کو کام کرتے وقت دیہان نہیں رہا اسی وقت تنویر کمال نے شبیر احمد کو فوری اپنی گاڑی میں لٹا کر ہسپتال پہنچایا تو انکی جان بچ گئی

سارا خرچہ تنویر کمال نے اٹھایا تھا اب جب شبیر احمد کو ہوش آگیا تھا تو انہوں نے سب سے پہلے اسکی بیٹی کے بارے میں پوچھا تھا
کیا تم اپنی بیٹی کی شادی کر دو گے میرے بیٹے سے؟ مجھے لگتا ہے تمہاری بیٹی اسے سنبھال لے گی اسے کسی قسم کی کوئی کمی نہیں ہوگی تم بے فکر رہنا

شبیر احمد نے کچھ پل کے لیے سوچا کہ کیا جواب دیا جائے لیکن لالچ بھی غربت کا حصہ ہوتی ہے اس نے یہی سوچا بیٹی کم از کم سکھ چین سے زندگی گزارے گی اسی لیے ہاں کر دی

جب وہ ہسپتال سے گھر آئے تو اس بارے میں شزا سے بات کی
بیٹا آپ بہت سمجھدار ہو ماشاءاللہ میں چاہتا ہوں باقی زندگی بھی بہت سمجھداری کے ساتھ گزارو
میں نے آپ کا رشتہ تنویر صاحب کے بیٹے کے ساتھ کر دیا ہے وہ معذور ہے لیکن یہ سب تو ہمارے ہاتھ میں نہیں کیا پتہ میں کسی صحت مند سے شادی کر دوں اور وہ بعد میں معذور ہو جائے

بیٹا تنویر صاحب بہت درد مند آدمی ہیں اللہ نے انہیں بہت آزمائش دی ہوئی ہے پیسہ بہت ہے لیکن سکون نہیں ایک ہی بیٹا وہ بھی معذور
مجھ غریب کے سامنے سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہاتھ پھیلانے پڑ گئے بیٹی ضروری نہیں زندگی میں سب کچھ ہی مل جائے کچھ ملتا ہے تو کچھ چھن جاتا ہے تم اگر اسے اپنا لو گی تو تمہیں اس غربت سے نجات مل جائے گی بس کبھی اس دولت کا ناجائز فائدہ مت اٹھانا کبھی یہ مت سمجھنا کہ تم نے کسی پر احسان کیا ہے اور جو تمہارا ہونے والا شوہر ہے اسکا بھرپور خیال رکھنا

شزا کے سامنے مال رکھ دیا گیا تھا لیکن ساتھ میں کانٹے بھی چن دیے تھے اب اسے ایک گھٹن بھری زندگی سے نکل کر آزاد ماحول میں جانا تھا وہ امیر ہونے جا رہی تھی دل باغ باغ ہو رہا تھا اسے سمجھ نہیں آرہا تھا وہ روئے یا ہنسے کیونکہ ایک انجانا سا خوف بھی ساتھ ساتھ تھا

زندگی گزارنے کے لئے دولت کافی ہوتی ہے..؟ کیا ایک لڑکی دولت پا کر خوش رہ سکتی ہے..؟ کیا شزا کی وہ چھوٹی سی کٹیا زیادہ سکون والی تھی یا اب یہ بڑا سا محل اسے سکون دے گا..؟
کیا شزا کو ایک معذور شخص سے محبت ہو جائے گی..؟ کیا دولت کا نشہ اسے مغرور بنا دے گا؟
کیا دولت اسکے ابھرتے جزبات کا بھی پیٹ بھر دے گی..؟

یہ سارے سوال ایسے تھے جو شزا کی زندگی میں داخل ہو رہے تھے اور شزا ان سب باتوں سے انجان ہو کر اپنی نئی زندگی میں قدم رکھنے کی تیاری کر رہی تھی

اس نے پورے محلے میں گا دیا تھا اسکی شادی ہو رہی ہے بہت امیر لوگ ہیں
محلے کی دوستیں اسے چھیڑنے اسکے گھر آگئی تھیں اور پوری معلومات بھی لینی تھی آخر کون ہے جس نے شزا کو پسند کر لیا

بہت امیر لوگ ہیں بہت پیسے والے جہیز بھی منع کر دیا اور سونا بھی بہت دیں گے.. شزا فخر سے سبکو بتا رہی تھی

اچھا تو لڑکا کیا کرتا ہے..؟ تصویر تو دکھاؤ.. ایک سہیلی نے تجسس سے پوچھا

لڑکا بہت ہینڈسم ہے اور تصویر نہیں میرے پاس اور بس دیکھ لینا جب شادی ہوگی… شزا نے گول مول جواب دے دیا اسے لگتا تھا کہ جیسے اسے صرف دولت نظر آرہی ہے اور کچھ نہیں اسی طرح دوسرے بھی بس دولت کا سُن کر حیران رہ جائیں گے کچھ نہیں پوچھیں گے مگر یہ اسکی بھول تھی..
دنیا اس پر اس حد تک ترس کھائے گی اسے اندازہ نہیں تھا

ناشکری کی کوئی حد نہیں ہوتی انسان واقعی ناشکرا ہے دولت پا کر بھی ہوس پوری نہیں ہوتی شزا کے سپنے دولت سے جڑے ہوئے تھے جو اسے مل رہی تھی باقی چیزیں اسے کیسے ملیں گی اسے نہیں پتہ تھا

وہ تو تھوڑے عرصے بعد ہی دلہن بنی اسٹیج پر بیٹھی تھی اور اسکا دلہا وہیل چئیر پر بیٹھا بارات لے کر آرہا تھا… شزا جتنا آسان سمجھ رہی تھی اتنا آسان نہیں تھا زندگی گزارنا یہ احساس اسے شادی کی رات کو ہی ہو گیا تھا جب ایک معذور شخص کے ساتھ اس نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی رات گزاری جو نہ صحیح سے بول سکتا تھا نہ اٹھ سکتا تھا نہ بیٹھ سکتا تھا اس کے سب کام اس کے نوکر کرتے تھے اسے گھن آرہی تھی اس کے برابر میں سوتے ہوئے خوب مہنگا شادی کا سوٹ پہن کر بڑے سے اے سی والے روم میں بڑے سے بیڈ پر لاکھوں کا زیور پہنے ہوئے وہ دولت کے ساتھ ہی بیٹھی تھی لیکن یہ دولت معذور تھی اور اب اُسے اس معذوری سے گھن آرہی تھی اسے نیند نہیں آرہی تھی وہ رات اس نے جاگتے ہوئے گزاری پتہ نہیں کیوں اس دولت کو پا کر وہ خوشی نہیں ہو رہی تھی جس دولت کے انتظار میں اس نے خوب دعائیں کیں تھیں جس دولت کے انتظار میں وہ ہوٹل کے باہر بیٹھی رہتی تھی جس دولت کو وہ زندگی کا سکون سمجھتی تھی اب کیوں بے چینی محسوس ہو رہی تھی الٹے سیدھے خیالات کو سوچتے ہوئے اسکی آنکھ لگ گئی جب آنکھ کھلی تو کوئی زور زور سے چلا رہا تھا کہ اسے اٹھا کر بٹھاؤ اسے واش روم جانا ہے اور وہ اسکا شوہر تھا…

Exit mobile version