اب بھی ڈوبتی کشتی کو پار لگایا جا سکتا ہے
ان جاہل حکمرانوں کے تخت کو گرایا جاسکتا ہے
گر انکا تخت و تاج الٹا نہیں سکتے
مگر ان کی حکمرانی کو تو جھٹلایا جاسکتا ہے
ضروری تو نہیں ہم بھی کاٹیں ہجر و وصال
تیری جگہ کسی اور کو بھی تو اپنایا جا سکتا ہے
یہ تیرا حسیں خدوخال یہ حسیں زلفیں
کیوں الجھیں ان میں انکو جلایا بھی تو جا سکتا ہے
چند جاہل متحد ہو کر سمجھتے ہیں
کہ مجھ دانا کو ہرایا جاسکتا ہے
اگرچہ کچھ خاص نہیں اپنا اندازِ بیاں
مگر پھر بھی حال دل تو سنایا جاسکتا ہے